اصلاح معاشرہ مذہبی مضامین

تباہ حال سیمانچل میں وبائی جلسوں، اور جہیز مافیاؤں کی یلغار

ازقلم: مشتاق نوری

ابھی سیمانچل میں جلسوں کا تہوار اور شادیوں کا موسم ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔کچھ لوگوں کے لیے یہ دونوں ہی بہت ہی گرما گرم عید ملن تہوار جیسے ہیں تو کچھ کے لیے آزمائش۔یہ ایک اصولی بات ہے کہ کوئی بھی چیز جب حد سے تجاوز کر جاۓ اس کا سائڈ افیکٹ ہونا لازمی ہے ٹھیک ویسے ہی جیسے جلابِ مرکب کا ڈوز زیادہ لینے سے مریض کے پیٹ و معدے پر بن آتی ہے۔یا جیسے بسیار خوری سے Food poisoning کا خطرہ برھ جاتا ہے۔یہی حال کچھ ہمارا ہے۔

کل ایک دوست سے فون پہ بات ہورہی تھی۔دوران گفتگو جلسوں کی بات چل نکلی۔میں نے کہا کہ ابھی دو روز قبل میرے پڑوس میں ایک جلسہ ہوا ہے جس میں ۲۵،ہزاری، تیس ہزاری تین بڑے نعت خواں بلاۓ گیے تھے۔تو وہ حیرت سے پوچھنے لگے کہ مشتاق بھائی! آپ کا علاقہ تو کافی پسماندگی کا شکار ہے۔ باڑھ سیلاب سے ہر سال تباہی ہوتی ہے۔جانی مالی نقصان جھیلنا پڑتا ہے۔اوپر سے کورونا کا قہر لگ بھگ سال بھر سے جاری ہے پھر آپ کے علاقے کے لوگ اتنے مہنگے جلسے کرتے کیسے ہیں؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مالی بحران کے باوجود آپ کے سیمانچل والوں نے مہنگے جلسوں کے لیے اس کورونا کال میں بھی کیسے خود کو اسٹینڈ کر لیا؟ ابھی تو دیگر ریاستوں کے لوگ کھڑے بھی نہیں ہوسکے ہیں۔

میرے پاس کوئی بڑا جواب نہیں تھا۔میں صرف اتنا ہی کہ سکا کہ ہمارے مولویوں نے اور پیروں نے عوام کو ایسی بھانگ پلائی ہے ایسی افیم کھلائی ہے کہ اس کا اثر ایسے ہی موقعوں پر دکھتا ہے۔چاہے جیسے ہو کرنا ہے۔کچھ ہو نہ ہو جلسے جلوس بند نہیں ہونے چاہیے۔فرائض و واجبات سے کوئی تعلق نہیں مگر ہر گانو جلسہ سجاتا ہے۔یہ کتنی حیرت کی بات ہے کہ غربت زدہ گانو بھی سالانہ جلسہ ضرور منعقد کرتا ہے۔ابھی سیمانچل کے صرف ہر خطے میں نہیں، ہر گانو میں جلسہ ہورہا ہے۔یہ پلائی گئی اسی بھانگ لکوڈ کا اثر ہے ورنہ جو لوگ کمانے کے لیے ہر سال دہلی، ممبئی، پنجاب ہریانہ اور دیگر ریاستوں، شہروں کا رخ کرتے ہیں وہ اپنے اوپر اتنے مہنگے جلسے کروانا کیوں لازم سمجھتے؟

دوستو! دقت جلسوں سے نہیں، ہماری فکری گراوٹ سے ہے۔ہمارے تعلیمی ادارے ابھی بند پڑے ہیں۔ہمارے پاس اچھے اسکول نہیں۔ہمارے علاقے کے کم عمر بچے دہلی ممبئی جیسے مختلف شہروں میں گزر بسر کے لیے برتن مانجھتے ہیں۔ٹائر میں ہوا بھرتے ہیں۔زری کا کام کرتے ہیں۔جس عمر میں انہیں پڑھنا چاہیے وہ پیٹ کی آگ بجھانے، گھر کا چولہا جلانے کے لیے باہر محنت مزدوری کر رہے ہیں۔ مالکوں کے نخرے جھیل رہے ہیں۔اور ہمارے عیاش طبیعت لوگ ہرسال کس منہ سے اتنے بڑے بڑے جلسے مینیج کرتے ہیں؟

بڑے جلسے اور بڑے نعت خواں کے نام پر جس لگن کے ساتھ ہمارے نوجوان لڑکے سر پہ ٹوپی چڑھا کر چندوں کے لیے گلی گلی گانو گانو پھیرا لگاتے ہیں، اے کاش! اگر وہ اس کی عشر عشیر بھی دلچسپی دکھاۓ کسی غریب کی لڑکی کی شادی کے انتظام کے لیے تو آج سیمانچل میں جہیز جو ایک ناسور کی طرح پھیلتا جارہا ہے۔کیا امیر کیا غریب سب کو اپنے لپیٹے میں لے چکا ہے۔اس وبا سے کچھ تو راحت ملے گی۔جہیز کی بڑی بڑی مانگوں کے سبب غریبوں، بے زروں کے ارمان و امید پر پانی پھرتا جارہا ہے۔بچیاں سسکیاں لے لے کر دم توڑ رہی ہیں۔علاقے میں جہیز کی لعنت کو جو بطور فیشن فروغ ملا ہے اس کا خمیازہ وہ غریب بھگت رہے ہیں جو روز کنواں کھودتے ہیں روز پانی پیتے ہیں۔ انہیں بھی کم سے تین لاکھ پلس کے جہیز کا انتظام کرنا ہی پڑتا ہے۔میری اپنی بھانجی کی عقد خوانی ہوئی۔اس کا صرف جہیز ساڑھے سات لاکھ کا جارہا ہے۔تین لاکھ کیش کے ساتھ۔
جب لگاتار ہوتے ان جلسوں سے،ہمارے ان پیروں کی آمد سے جہیز کی مانگ کم ہونے کے بجاۓ بڑھتی جا رہی ہے تو پھر ان جلسوں اور نذرانے والے باباؤں سے کیا فائدہ؟اس کے بھی ہم ہی ذمہ دار ہیں۔جلسوں کی اہمیت پر اتنی روایتیں گھڑ لی گئی ہیں کہ علاقے کے عام لوگ سمجھتے ہیں کہ انہی چیزوں سے آخرت ملنے والی ہے۔جب کہ یہ صرف ایک خواب ہے۔ان سے جب دنیا بہتر نہ ہوسکی تو عقبی کیا خاک ملے گا؟آخرت کا حصول فقط خدا و رسول کی اطاعت سے ممکن ہے۔

اگر اہل سیمانچل چاہتے ہیں کہ علاقے کی تقدیر اور تصویر دونوں بدلی جائیں تو پہلی فرصت میں شیخوں، پیروں کے دورے کم سے کم کر دیئے جائیں۔یہ مہنگے جلسوں کی وبا دور کی جاۓ۔لٹریسی ریٹ پر دھیان دے کر جدید تعلیمی اداروں کی سرپرستی کی جاۓ۔تعلیم کو ہر غریب مزدور کی پہنچ تک لانے کے لیے اسے آسان اور سستا کیا جاۓ۔ہر سال جو ہم بلکہ ہماری طرح ہر آدمی ہزار دو ہزار روپے جلسوں کے لیے چندہ دیتے ہیں اسے غریب بچوں کی تعلیمی کفالت پر صرف کیا جاۓ۔منصوبہ بند طریقے سے کوچنگ و ٹیوشن سنٹرز کھولے جائیں۔یا جلسوں سے بچاۓ گیے پیسوں سے کوچنگ ٹیچرز کو غریب بچوں کی فیس ادا کردی جاۓ۔مساجد کے ائمہ کو اور مدارس کے مدرسین و معلمین کو خاطر خواہ تنخواہیں دے کر مستطیع و خود کفیل بنایا جاۓ تاکہ وہ کھلے من سے خدمات انجام دیں۔مسجدوں میں باصلاحیت خطیبوں کے تقرر سے جلسوں کی کمی پوری کی جاۓ۔ہمارے متمول حضرات جو اپنے پیر صاحبان کو ہرسال اپنے گھر دعوت کرکے ایک رات میں لاکھوں پھونک دیتے ہیں انہیں سماجی ذمہ داری کے تئیں کنوینس کیا جاۓ تاکہ سماج کی وہ لڑکیاں قلت اسباب کے سبب جن کے ہاتھ پیلے نہ ہوسکے ان کا سفر حنائی آسان ہو سکے۔
یہ کتنا دکھ بھرا احساس ہے کہ مجھے کئی لوگوں نے کہا کہ حضرت میری بیٹی/بہن کے لیے کوئی رشتہ دیکھیے گا۔اور میں انہیں صرف دلاسا ہی دے پاتا ہوں اور کچھ نہیں۔ڈھنگ کے دولہے کے لیے گھر والے منتظر بیٹھے ہوتے ہیں۔انتطار کی طویل ہوتی گھڑیاں امیدوں کے چراغ دھندلا دیتی ہیں۔جوبن کی عین عمر نکل جاتی ہے پر لڑکے نہیں ملتے۔پھر نوسربازوں کے بہکانے سے یا نفس امارہ کے اکساوے سے لڑکیاں بے راہ روی اور غلط کاری کی طرف نکل پڑتی ہیں۔یہ سماج کی وہ سچائی ہے جسے ہر روشن آنکھ دیکھ سکتی ہے ہر باشعور دل محسوس کرسکتا ہے۔
اگر مذکورہ بالا تجاویز پر ۵۰ فیصد بھی عمل ہوجاتا ہے تو اگلے پانچ سال میں مہانندہ، میچھی، ڈوک و گنڈک جیسی قہر برپاتی ندیوں کے بے رحم تھپیڑے کھا کر بھی آج کا تباہ حال سیمانچل کل لہلہا اٹھے گا۔پھر یہ سپنوں کا، رہائش کا،اور سیاحت کا سیمانچل ہوگا۔بہت قلیل عرصہ میں ایک مثالی سیمانچل بن جاۓ گا۔
یہ مشکل ضرور ہے ناممکنات سے نہیں ہے۔بلکہ بہت ممکن ہے۔اس کے لیے صرف پیر حضرات کو کچھ قربانی دینی ہوگی۔اگر یہ لوگ بر سر اسٹیج جلسے کم کرنے کرانے کی بات کہ دیں،خود اپنے دوروں کی کثرت پر قدغن لگا لیں تو سیمانچل پھر سے اپنے قد کے ساتھ کھڑا ہو جاۓ گا۔
کوئی کہ سکتا ہے کہ تمہیں پیروں کے دوروں سے کیا دقت ہے تو صاحب جب سے کورونا افیکٹ سے تھوڑی چھوٹ ملی ہے ۲۲ گھر پر مشتمل میرے ننھے سے گانو میں تین بڑی بڑی خانقاہوں کے نمائندہ قافلے اتر چکے ہیں، ابھی سلسلہ دراز ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے