افسانہ نگار: ڈاکٹرصالحہ صدیقی (الہٰ آباد)
salehasiddiquin@gmail.com
سونی اپنے گھر کی ہوشیار بچی تھی ،پڑھائی ،لکھائی اور کھیل کود میں ہمیشہ اول نمبر پر رہتی تھی ۔عمر تو اس کی تقریبا آٹھ سے دس برس ہی تھی ۔لیکن گھر میں سب کی دلاری تھی ،سونی کی ممی کو پیڑ پودوں سے بہت لگاؤ تھا ۔وہ اپنے گھر کے الگ الگ حصوں میں پھولوں کے پودے بڑے شوق سے لگاتی تھی اور ان کی دیکھ ریکھ بھی خود ہی کیا کرتی تھی ۔سونی جب بھی ان پودوں کے پاس کھڑی ہوتی پتیوں اور پھولوں کو توڑ دیتی اور زمین پر انہیں بکھیر دیتی ۔ اس کی اس عادت کے لیے ممی سے ڈانٹ بھی پڑتی،مگر پھر بڑے پیار سے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سمجھاتی ۔۔۔بیٹا! پھولوں میں بھی جان ہوتی ہے ،وہ بھی ہماری طرح سانس لیتے ہے،ایسے نہیں توڑتے ،مگر سونی ان کی باتوں پر غور نہ کرتی اور اپنی ہی دنیا میں کھوئی ممی کی باتوں کو ان سنا کر کھیلنے چلی جاتی۔
ایک دن سونی ممی کے ساتھ بازار گئی ،اوربازار کی رنگ برنگی چیزوں کو دیکھ کر خوشی سے اچھلنے لگی ،ممی نے سونی کو کھلونے دلائے ،او راپنی ضرورت کا سامان خرید کر گھر واپسی کے لئے لوٹنے لگی۔
دوپہر کا وقت ،چلچلاتی دھوپ میں سورج کی کرنیں سونی کے نازک گال کو اپنی تپش سے لال کرنے لگی،اور گلا پیاس سے خشک ہونے لگا۔سونی ممی کی انگلی پکڑ کر روڈ کے کنارے رکشے کا انتظار کر رہی تھی،لیکن گرمی کی شدت نے سائے کی تلاش شروع کر دی ،تھوڑی سی دوری پر سونی کو گل موہر کا پیڑ دکھا،سونی ممی کو اپنی ننھی انگلیوں سے پیڑ کی طرف اشارہ کرنے لگی،ممی سونی کی انگلی پکڑ کر پیڑ کے سائے میں بیٹھ گئی ،سونی اپنا چہرہ اٹھا کر گھنے سائے دار پیڑ کو دیکھنے لگی،اور اپنے خیالوں کی دنیا میں گم ہوگئی ،تبھی گل موہر کا ایک پھول اس کی گود میں آکر گر گیا ۔
اگلے دن سونی کی ممی جب سو کر اٹھی اور اپنی آنکھیں ملتے ہوئے بالکونی میں آئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ سونی بڑے پیار سے پھولوں کے پودوں کو پانی دے رہی تھی ،سونی ممی کو دیکھ کر ان مسکراتے ہوئے کھلے پھولوں کی طرح کھل اٹھی۔