از: نیاز جے راج پوری علیگ
اعظم گڑھ، یو۔پی۔
رُت بسنتی آ گئی
آ کے گُل بُوٹوں کے گہنے دھرتی کو پہنا گئی
رُت بسنتی آ گئی
تِتلیاں ہیں اُڑتی پَر سَت رنگی پَھیلائے ہُوئے
کلیوں پَر منڈرا رہے ہیں بَھنورے للچائے ہُوے
جاگتی آنکھوں میں سپنے بُننے کی رُت آ گئی
رُت بسنتی آ گئی
بَور کی خوشبو سے مہکے مہکے ہیں باغ آموں کے
اوڑھ لی پِیلی چُنرِیا سب کھیتوں نے سرسوں کے
کِھلنے کو بیکل کلی بھی اوڑھنی سَرکا گئی
رُت بسنتی آ گئی
دِل کو آنکھوں میں دھڑکتے رہنے کا ڈھنگ آ گیا
خامشی کو بھی بہت کچھ کہنے کا ڈھنگ آ گیا
یاد پردیسی سجن کی سجنی کو تڑپا گئی
رُت بسنتی آ گئی
دُور اب اپنے کناروں سے ہے مَدماتی ندی
سِمٹی اپنے آپ میں اِٹھلاتی بَل کھاتی ندی
بات اُبھرنے ڈوبنے والی سمجھ میں آ گئی
رُت بسنتی آ گئی
چارپائی آ گئی دالانوں سے انگنائی میں
رعب اب باقی نہیں ہے جاڑے کی ٹھکُرائی میں
الگنی پر بَیٹھ کر گوریّا یہ سمجھا گئی
رُت بسنتی آ گئی
رنگ بدلا انگ انگ کا چال بہکی بہکی ہے
گدرایا گدرایا یوّون کایا مہکی مہکی ہے
لہرائیں تَن مَن ، پھاگُن کی اِن پہ مستی چھا گئی
رُت بسنتی آ گئی
اے نیازؔ آنکھوں میں ہے تصویر جیراجپور کی
فخرِ ہندوستان کی اور اعظم گڑھ کے نور کی
یادیں میرے گاؤں کی سنگ اپنے لیکر آ گئی
رُت بسنتی آ گئی