ازقلم: محمد ایوب مظہر نظامی
علمی و فکری تحریک کی اشاعت کے لئے اور اپنے تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی اقدار سے آشنائی حاصل کرنے کے لئے لائبریریوں کا وجود انسانی جسم میں "ریڑھ کی ہڈی” کے مانند متصور کیا گیا ہے، چنانچہ اسلامی تاریخ کا مطالعہ یہ شہادت دے گا کہ مسلم خلفاء، امراء و سلاطین علوم اسلامی کی ترتیب و تدوین اور اس کی اشاعت کے لئے باضابطہ لائبریریوں کے قیام کو اپنی اعلیٰ ترین ترجیحات میں شامل کرکے اپنی قوم کو یہ علمی مزاج دیا کہ دعوت وتبلیغ اور علوم اسلامیہ کی اشاعت میں لائبریریوں کا وجود ناگزیر ہے،
اگر عہد اسلامی کی طرف ہم ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں تو ہمیں اس دور کی ہر تعلیمی دانشگاہ میں اعلیٰ ترین لائبریریوں کا سراغ ملے گا، چنانچہ کورڈوا یونیورسٹی اسپین اور نظامیہ یونیورسٹی بغداد کی لائبریریوں میں چار لاکھ کتابیں تھیں، رے ( Ray) کی لائبریری میں اتنی تعداد میں کتابیں تھیں کہ انہیں چار سو اونٹ سے کم پر نہیں رکھا جا سکتا تھا، بویحد حکمراں عضد الدولہ نے شیراز میں "خزینۃ الکتب” کے نام سے ایک اتنی بڑی لائبریری قائم کی جو تیس کمروں پر مشتمل تھی اور ہر کمرہ کتابوں سے بھرا تھا، فاطمی خلیفۃ الحکیم قاہرہ میں ایسی زبردست لائبریری قائم کی جو چالیس ہال پر مشتمل تھی اور ہر ہال میں کتابوں کے ذخیرے موجود تھے، اس کے علاوہ اسلامی تاریخ میں خلافت عباسی کے زوال کا دلدوز حادثہ بھی اربابِ علم و نظر سے پوشیدہ نہیں ہوگا کہ جب بغداد پر چنگیزی لشکر کا حملہ ہوا تو اس نے خلافت عباسی کو تاراج کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں کی لائبریری کی تمام کتابیں جلا کر جب دریائے دجلہ و فرات میں ڈالیں تو ان کا پانی سیاہ ہو گیا تھا،
اب علوم اسلامی کی پاسبانی کے دعوے دار اور خلفائے راشدین اور علماء صالحین کے نشان قدم کو "چراغ راہ منزل” سمجھ کر ان پر چلنے والے اپنے ادارے، سماج اور معاشرے کا جائزہ لے، اور اپنے مدارس کے شعبوں کا محاسبہ کریں ؟ دار الحفظ والتجوید، دار التفسیر اور دار الحدیث جیسے شعبوں کے لئے ہم نے بڑی بڑی عمارتیں تو قائم کر دی ہے مگر ان علوم کی ترتیب و تدوین جن لائبریریوں کے سہارے کی گئی ہمارے یہاں اس کی اہمیت یہ ہے کہ وہ ایک ایک حجرے میں بے ترتیبی سے سمیٹ کر اپنی مفلسی کا منظر نامہ پیش کر رہی ہیں، ظاہر ہے علم و فن کے سر چشمے کے ساتھ اس درجہ بے اعتنائی کے بعد مدارس کے انتظامیہ اور اساتذہ کا طلبہ میں علمی، فکری اور تحریری مزاج کے فقدان کی گلہ مندیاں زیب نہیں دیتیں، ایسے میں ہمیں دیگر مکاتب فکر کے ترجمانی کرنے والے اداروں کا مشاہدہ کرنا چاہیے جہاں لائبریری کا حسنِ انتظام، کتابوں کے ذخیرے اور اس کی فلک پیما عمارت اربابِ ذوق و نظر کو دعوتِ نظارہ دیتی ہے، وہ خود تو ان لائبریریوں کے سہارے ملک و ملت کے سلگتے ہوئے مسائل پر کتابیں لکھتے اور ترتیب دیتے ہی ہیں عصری دانشگاہوں سے وابستگان اسکالرز، اساتذہ اور طلباء بھی مذہبی موضوعات پر ان کی لائبریریوں کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہیں، اگر اب بھی ہم نے اپنے اداروں کے شعبوں، نصاب اور نظام تعلیم پر اپنی اصلاحات کر لیں تو جماعتی سطح پر قابلِ فخر علماء، اچھے قلم کار اور مصلح خطیب کے کم یابی کا رونا ختم ہو سکتا ہے،اس لئے میرا ماننا ہے کہ ہر مدرسہ اور ہر سوسائٹی میں لائبریریوں کا وجود ہونا چاہیے تاکہ جماعتی سطح پر اچھے قلم کار، با صلاحیت علماء اعلیٰ فکر و نظر کے حاملین پیدا ہو سکیں، آپ کیا کہتے ہیں ضرور آگاہ کیجئے گا