ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
جامعہ اشرفیہ اور درس و تدریس:
حضور حافظ ملت منظر اسلام سے فراغت کے بعد اپنے استاد گرامی حضرت صدر الشریعہ کے حکم پر ٢٩/ شوال المکرم ١٣٥٢ھ کو مبارک پور تشریف لائے اور مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم(واقع پرانی بستی) میں تدریسی خدمات پر مامور ہوئے. ابھی چند ہی ماہ گزرے تھے کہ آپ کے درس و تدریس کا شہرہ عام ہوا اور تشنگان علوم نبویہ کا سیلاب امنڈ پڑا. جس کی وجہ سے مدرسہ تنگ دامنی کا شکوہ کرنے لگی. چناں چہ آپ کے دن رات کی کوشش سے ١٣٥٣ھ میں دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم کے نام سے جدید عمارت کی بنا رکھی گئی، جس کا تاریخی نام "باغ فردوس” ہے.
یہ عمارت بھی طلبہ کی کثرت کی وجہ نافی ہونے لگی، پھر ایک وسیع و عریض زمین خریدی گئی اور ١٣٩٢ھ-١٩٧٢ء میں ہندوستان بھر کے مشہور و معروف علماے کرام و مشائخ عظام کے ہاتھوں اس کی بنیاد رکھی گئی اور اس کا مختصر نام ” الجامعۃ الاشرفیہ” رکھا گیا.
جب پہلی مرتبہ حا فظ ملت مبارک پور تشریف لائے اس وقت کن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا اس حوالے سے آپ ہی کے شاگرد رشید اور عینی مشاہد حضرت مولانا شاہ سراج الہدای قادری مصباحی گیاوی علیہ الرحمہ کی چشم کشاں تحریر نذر قارئین کر رہا ہوں ملاحظہ کریں وہ تحریر کرتے ہیں: جیسے ہی تعلیمی کام شروع ہوا اور مبارک پور میں اہل سنت کے ایک معیاری دارالعلوم کے قیام کا غلغلہ قرب وجوار میں بلند ہوا، مذہبی حریفوں میں ایک کھلبلی سی مچ گئی، اس تحریک کو ناکام بنانے اور تخریبی کاروائیوں کا سلسلہ شروع کرنے کے لیے پورے ضلع سے ائمہ شر و فساد مبارک پور میں سمٹ کر آگئے وہ اپنے زعم باطل میں یہ سمجھے ہوئے تھے کہ ایک تنہا اور نو وارد مسافر کو جس کے ہم نواؤوں اور حامیوں کی تعداد بھی صفر کے برابر ہے تنگ کر کے مبارک پور سے باہر کر دینا کیا مشکل ہے، چناں چہ انھوں نے اپنی شرارتوں کا آغاز کرتے ہوئے ایک جلسے کا انعقاد کیا اور مذہب اہل سنت کی مذمت اور مدرسے کی مخالفت میں اشتعال انگیز تقریریں کیں، مبارک پور میں اکثریت ان کے ساتھ تھی اس لیے اس جلسے سے لوگ بہت زیادہ متاثر ہوئے، لیکن دوسرے دن جب جوابی جلسہ ہوا اور حافظ ملت کی معرکۃ الآرا تقریر ہوئی تو غلط فہمیوں کے بادل چھٹ گئے ، مبارک پور کے عوام کو بھی عرفان حق کی ایک نئی روشنی ملی اور حزب مخالف کو بھی دن میں تارے نظر آنے لگے۔ پہلے تو وہ اپنے دیرینہ تعلقات کی بنیاد پر وہاں کے عوام کو ہتھیار کے طور پر حافظ ملت کے خلاف استعمال کرنا چاہتے تھے، لیکن اب خود ان کے عوام ان سے ٹوٹتے نظر آنے لگے؛ اس لیے اپنے عوام کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے پھر انھیں جلسہ کرنا پڑا۔
اسی طرح دونوں طرف کم و بیش چھ مہینے تک جلسوں کے انعقاد کا سلسلہ جاری رہا اور دونوں طرف تقریروں کے تبادلے ہوتے رہے۔ حافظ ملت اور ان کے تلامذہ کی تقریروں کا مبارک پور کے عوام پر اتنا گہرا اثر پڑا کہ مبارک پور کی مسلم آبادی کا تین چوتھائی حصہ ٹوٹ کر حافظ ملت کے ساتھ ہو گیا، چھ مہینے کا یہ زمانہ حافظ ملت کے لیے انتہائی مصروفیات کا زمانہ تھا، صبح سے شام تک تنہا اٹھارہ کتابوں کا درس، افتا کا کام ، عوام کی روحانی مذہبی اور معاشرتی ضرورتوں کی تکمیل اور شب میں روزانہ تقریروں کا سلسلہ، ایک لمحے کے لیے بھی سکون واطمینان کا موقع دستیاب نہیں تھا۔
عصر سے مغرب تک جو خالص تفریح کا وقت تھا وہ بھی جوابی تقریروں کی تیاری کے لیے مخصوص ہوگیا تھا، ہم چند منتہی طلبہ تفریح میں حضرت کے ساتھ ہو جاتے تھے اور راستہ چلتے ہوئے حضرت کو شب گزشتہ ہونے والے حزب مخالف کے جلسے کی رپورٹ سناتے اور حضرت اس وقت برجستہ ان کے اعتراضات کے جوابات مرحمت فرماتے اور ہمارے درمیان اس دن کے جلسے کے لیے الگ الگ موضوع بھی تقسیم فرما دیتے، اس چھ مہینے کی مدت میں حضرت حافظ ملت کے علمی تبحر ، فکر و بصیرت کی گہرائی اور ان کے اخلاص و استقلال کا قوم نے جتنا سخت امتحان لیا اس دور میں مشکل ہی سے اس کی مثال مل سکے گی۔
[ماہ نامہ اشرفیہ مبارک پور کا حافظ ملت نمبر. جديد ایڈیشن-ص:١٤٦/١٤٧]
واضح رہے کہ یہ حافظ ملت کا فراغت کے بعد درس و تدریس کا پہلا موقع تھا اور اس وقت میں اٹھارہ کتابیں پڑھانا اور ان کا پہلے مطالعہ کرنا، اس کے لیے بھی وقت نکالنا یہ کتنا مشکل دور رہا ہوگا ان کے لیے آپ تصور کر سکتے ہیں. وہ بغیر مطالعہ کے پڑھانے کے خلاف تھے، بلکہ پہلے مطالعہ تمام اسرار و رموز اور اعتراضات کے حل کے ساتھ درس گاہ میں تدریس کے لیے تشریف لے جاتے تھے.
ہر حال میں یکساں تدریس: درس گاہی غیر حاضری سے آپ حتیٰ الامکان پرہیز کرتے تھے اگرچہ آپ کی طبیعت ناساز ہی کیوں نہ ہو، بلکہ سفر سے واپسی ہو یا حضر، پریشانیوں الجھنوں کا سامنا ہو یاراحت و سکون کی سانس، کسی بھی حال میں حضرت حافظ ملت کے اندازہ تدریس میں ذرہ برابر فرق محسوس نہیں ہوتا۔ کسی بھی سفرسے واپسی کے وقت تعلیم کاکچھ بھی وقت باقی رہتا تو دارالعلوم تشریف لاتے درس گاہ میں پہونچنے سےپہلے ہی کسی طالب علم سے فرما دیتے فلاں جماعت کو بھیج دو وہ جماعت پہنچتی عبارت پڑھواتے، گذشتہ سبق سے موجودہ سبق کا ربط بیان فرما کر عبارت کی تشریح اور مقصود عبارت کو اس طرح بیان فرماتے کہ ایام قیام کی تفہیم و تشریح کے انداز سے سرمو فرق نہیں ہوتا جبکہ سفر کے تکان سے ذہن کا بو جھل ہو جانا لازمی امر ہے ۔[معارف حافظ ملت:46]
شخصیت سازی:
شخصیت سازی کے معاملے میں حافظ ملت علیہ الرحمہ اپنی مثال آپ تھے. اس شعبے سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا. اس سلسلے میں ایک خوب صورت تحریر آپ کے چہیتے شاگرد حضرت علامہ ارشدالقادری علیہ الرحمہ کی نذر قارئین کر رہا ہوں پڑھیے اور شوق سے پڑھیے وہ لکھتے ہیں:”حافظ ملت کی زندگی کا سب سے نمایاں جو ہر اپنے تلامذہ کی پرسوز تربیت اور ان کی شخصیتوں کی تعمیر ہے، اپنے اس وصف خاص میں وہ اتنے منفرد ہیں کہ دور دور تک کوئی ان کا شریک وسہیم نظر نہیں آتا، شخصیت سازی کے فن میں کوئی مستقل کتاب اب تک میری نظر سے نہیں گزری لیکن اپنی معلومات اور تجربات کی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ وہ اس فن کے امام تھے ، شخصیت سازی سے میری مراد اپنے تلامذہ کو ان اوصاف کا حامل بنانا ہے جو ایک مرد مومن کی زندگی کے لیے ضروری ہے ، درس و تدریس کی دنیا میں اس فن کے نام سے اگر کوئی فن پہلے سے موجود تھا تو بلا شبہ انھوں نے اس فن میں گراں قدر اضافے کیے ہیں، بلکہ یہاں تک میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر کوئی صاحب فکرو قلم حافظ ملت کی زندگی کا گہرا مطالعہ کرے تو اسے شخصیت سازی کے فن پر اتنے مواد مل جائیں گے کہ وہ آسانی سے اس فن پر ایک ضخیم کتاب تیار کر سکتا ہے۔
"تاج محل کی تعمیر آسان ہے لیکن شخصیتوں کی تعمیر کا کام بہت مشکل ہے” ،حافظ ملت کو اس کام سے عشق کی حد تک تعلق تھا، سفر میں ، حضر میں، حلقہ درس میں مجلس خاص میں ، کہیں بھی وہ ایک لمحے کے لیے اپنے فریضہء عشق سے غافل نہیں رہتے تھے ، تاریخ میں مصلحین واساتذہ کی زندگیوں کے جو بے شمار واقعات محفوظ ہیں ان میں شخصیت سازی سے متعلق بکھرے ہوئے جزئیات کا اگر آپ گہرا مطالعہ کریں تو آپ میری اس رائے سے اتفاق کریں گے کہ شخصیت سازی کے لیے کسی معلم و مصلح میں ان پانچ اوصاف کا ہونا ضروری ہے:
ا- شفقت، ۲-ذہانت، ٣- تدبر، ٤-علم،٥-تقویٰ.
اور حقائق و واقعات شاہد ہیں کہ یہ پانچوں اوصاف حافظ ملت کی زندگی میں ابھرے ہوئے نقوش کی طرح نمایاں ہیں۔
جہاں تک شفقت کا تعلق ہے وہ اپنے تلامذہ پر باپ سے بھی زیادہ شفیق تھے ، باپ کی محبت بھی اپنے چند بیٹوں کے درمیان کبھی کبھی غیر متوازن ہو جاتی ہے یہاں تک کہ باپ کے خلاف بعض اولاد کو امتیازی سلوک کا شکوہ ہونے لگتا ہے، لیکن اپنے ہزاروں تلامذہ کے ساتھ حافظ ملت کا مشفقانہ سلوک اتنا عجیب و غریب تھا کہ ہر شخص اس خیال میں مگن رہتا تھا کہ حضرت مجھی کو سب سے زیادہ چاہتے ہیں-
[ماہ نامہ اشرفیہ کا حافظ ملت نمبر. ص:١٧٢/١٧٣]
علامہ قمرالزماں مصباحی رقم طراز ہیں :”حافظ ملت کی آغوش تربیت میں پروان چڑھنے والے طلبہ نے، زندگی کے جس میدان میں قدم رکھا کامیابیوں نے ان کے قدم چومے—— خدائے قدیر و جبار نے اس محسن ملت کو اس قدر جوہر شناس نگاہ بخشی تھی کہ وہ مٹی میں ملے ہوئے ناتراشیدہ پتھروں کے اندر پوشیدہ جواہر کو پہنچان لیتے تھے وہ انھیں زمین سے اٹھا کر اس تربیت گاہ میں لے جاتے جہاں سے نکلنے والے، ہمیشہ ارباب علم و فضل سے خراج تحسین وصول کرتے رہیں گے.
[ایضاً. ص:٤١٣]
دو طالب علم کا قصہ:
دو طالب علم خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام کر کے مؤدب بیٹھ گئے ، حافظ ملت نے پوچھا، کہاں سے آئے، دونوں نے جگہ بتائی اور بڑھ کر درخواست پیش کی، دونوں دور سے آئے ہوئے طلبا تھے۔ حضرت نے درخواست پڑھ کر فرمایا، میرے پاس درس گاہ میں بیٹھانے کی جگہ نہیں ہے ، رات کو سلانے کی بھی گنجائش نہیں. لہٰذا میں نے چند دنوں پہلے سے داخلہ بند کر دیا ہے ، دونوں طالب علم افسردہ ہو گئے اور چشم پر آب بیٹھے رہے۔ کچھ وقفہ کے بعد ان کا ملال دیکھ کر حضرت نے فرمایا، خیر آباد، محمد آباد، چریا کوٹ اور جین پور جہاں پسند کرو اس وعدہ کے ساتھ تم لوگوں کا داخلہ کرادوں کہ سال آئندہ تمھیں اشرفیہ بلالوں گا، طالب علم ان مقامات سے واقف نہیں تھے اس لیے عرض کیا کہ ہم لوگوں کو اپنے وطن سے مبارک پور کی دوری کا اندازہ نہیں تھا، گھر سے جو روپے لے کر ہم لوگ چلے تھے وہ سب اخراجات سفر میں ختم ہو گئے، اب کہیں جانےکے لیے پیسے نہیں بچ رہے ہیں۔ حضرت مولانا محمد احمد شاہدی علیہ الرحمہ کے نام مدرسہ انوار العلوم جین پور سفارشی مکتوب تحریر فرمایا۔
طلبا کو وہ مکتوب حوالے کرتے ہوئے فرمایا، ایک سال وہاں رہو اور دل لگا کر پڑھو، اس کے بعد دونوں کو جیب خاص سے دس، دس روپے دے کر کہا، پچاس پیسے کرایہ خرچ ہوں گے، باقی پیسے اپنی ضرورت کے لیے رکھنا اور جب کوئی ضرورت پیش آئے میرے پاس آجانا۔
دونوں طالب علم خدمت کی زمین چوم کر ہشاش بشاش روانہ ہوئے.
اس دس روپے کو آج کی نظر سے نہ دیکھیے ، یہ نصف صدی پہلے کا دس روپیہ تھا اس وقت مبار ک پور
میں دس نئے پیسے میں گوشت کی پوری اور پانچ نئے پیسے میں ادھی چائے ملتی تھی۔
[آئینہ حافظ ملت.بتصرف-ص:١٢٩/١٣٠/٣١]
طلبہ کو نصیحتیں:
حضور حافظ ملت کی یہ عادت کریمہ تھی کہ درس گاہ میں اکثر اوقات کبھی درس سے پہلے اور کبھی درس کے بعد طلبا سے تربیتی گفتگو فرماتے یا انھیں مسائل کے نوک پلک سمجھاتے.
تعلیمی سال جو شوال المکرم سے شروع ہو کر شعبان المعظم پر ختم ہوتا ہے، اکثر آخر سال میں بھی سالانہ امتحان سے پہلے تمام طلبا اور اساتذہ کوجمع کرکے تعلیم و تربیت پر ایسی مؤثر تقریر فرماتے کہ کچھ دیر کے لیے تو تمام طلبا میں ذوق وشوق کی نئی لہر ضرور پیدا ہو جاتی البتہ نیک سرشت طلبا ان نصائح پر قائم رہتے۔ [آئینہ حافظ ملت-ص- ١٥٠]
ایک دفعہ اسی طرح کی مجلس میں آپ نے طلبا کو یوں مخاطب فرمایا میرے عزیز طلبا! آج تمھاری بد عملی ، بے راہ روی اور نازیبا حرکتیں طالب علمی کے پردے میں چھپ جائیں گی ، یہ کہہ کر لوگ درگزر کر دیں گے کہ ارے میاں ! ابھی تو یہ لوگ طالب علم ہیں.
لیکن عادتیں یک بارگی نہیں بدلتیں، بدلتے بدلتے بدلتی ہیں اگر تم نے ابھی سے اپنے مستقبل کی قدر و قیمت کو نہیں سمجھا اور زندگی کی راہوں میں قدم پھونک پھونک کر نہیں رکھا، اپنے اسلاف کی سیرت و سنت سے روشنی حاصل نہیں کی تو تمھارا کردار و عمل ، علما کے دامن کو داغدار کر دے گا”_[آئینہ حافظ ملت-ص: ١٠٧]
سبحان اللہ! کتنے میٹھے بول ہیں، کتنی نتائج بردوش نصیحتیں ہیں، کتنا سبق آموزپیغام ہے اور کس قدر چبھتا ہوا درس عمل ہے، ایک دردمند استاذ کے دل کی کشش کا نتیجہ کیے کہ آج بلا شبہ
"مصباحی” علما کی خدمات کا سکہ ملک کے شرق و غرب میں ہی نہیں، انفس و آفاق پر چل رہا ہے اور اشرفیہ کی عظمتوں کا پرندہ عالم اسلام کی فضاؤں میں پرواز کر رہا ہے.
طلبہ سے خطاب:
طلبہ سے آپ خطاب نایاب فرماتے ہوئے کہتے ہیں :”قت بہت قیمتی چیز ہے، گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں ، وقت کا ضائع کرنا بہت بڑی بے وقوفی ہے اور خاص کر تعلیم کے اوقات کو تو بالکل ضائع نہیں کرنا چاہیے اس لیے کہ یہ سب سے قیمتی اوقات ہوتے ہیں تعلیم کے سلسلے میں طلبہ کو تین دور سے گذرنا
پڑتا ہے۔
پہلا درجہ: مطالعہ کا ہے، کہ کتاب پہلے خود سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے. دوسرا: یہ کہ استاذ جو سمجھائے اس کو غور سے سننا اور سمجھایا جائے اور جو سمجھ میں نہ آئے دیانت کا تقاضا ہے کہ اس کو استاذ سے پوچھا جائے، نہ سجھنے کی صورت میں خاموش رہنا بڑی بددیانتی ہے۔
تیسرا درجہ: ہے تکرار کا اس سے تدریس کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور پڑھانے کا طریقہ معلوم ہوتا ہے۔اب جو طالب علم ان تینوں دور سے گزر کر تعلیم حاصل کرے گا۔ وہ یقیناً با صلاحیت ذی استعداد اور قابل ہوگا اور جس نے اس طریقے کو نہیں اپنایا وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔
بعض طلبہ سمجھتے ہیں کہ طالب علمی کا دور آزادی کا دور ہے اس میں جتنا چاہو کھیل کودلو حالاں کہ یہ زمانہ انتہائی پابندی کا زمانہ ہے اس وقت جس چیز کی پابندی کی عادت پڑ جائے گی وہ ہمیشہ باقی رہے گی، لہٰذا اس وقت طلبہ کو نہایت پابندی کے ساتھ اپنے اوقات کو کام میں لانا چاہیے تا کہ جب آپ یہاں سے فارغ ہو کر نکلیں تو ہر جگہ کامیاب ہوں اور آپ کا قول ہی نہیں آپ کا فعل و کردار بھی ہدایت کا کام کرے، لوگ آپ کے کردار کو نمونہ بنائیں اور اس سے ہدایت حاصل کریں اور یہ اس وقت ہوگا جب آپ پہلے یہاں ہر چیز میں پابندی کی عادت ڈال لیں گے ، پڑھنے کے اوقات میں پڑھنے میں پورے انہماک کا ثبوت دیں گے اور اس کی پوری پابندی کریں گے. نماز میں جماعت کی پابندی کریں گے، اور حقیقت میں نماز تو جماعت ہی کی نماز ہے ورنہ صرف فرض کی ادائیگی ہے ۔ قرآن کا ارشاد ہے:اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(پارہ:١-رکوع:٥)
نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو.
یعنی جماعت سے نماز پڑھو، تو جماعت کی تاکید آئی ہے اس کے علاوہ احادیث میں بھی جماعت کی بہت تاکید آئی ہے.
[حیات حافظ ملت-ص:٢٩٨/٢٩٩]
حافظ ملت اور میدان خطابت: حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ اس فن سے بھی آراستہ تھے، آپ صرف خطیب و مقرر ہی نہیں بلکہ مقرر ساز بھی تھے. اور پیشہ ور مقرر نہیں تھے بلکہ آپ کی تقریریں قرآن و حدیث سے مزین و مبرہن ہوا کرتی تھی. اور موجودہ دور کے خطبا و مقررین کی طرح نذرانہ فکس، ناز نخرے کا دور دور تک کوئی گمان بھی نہیں کر سکتا ہے.
تاریخ دینے کی صورت میں بعض دفعہ طبیعت ناساز ہونے کے بعد بھی وعدہ وفائی کے لیے آپ تشریف لے جاتے اگرچہ بخار سے آپ تپ رہے ہوں.
لکھنؤ کے ایک جلسے میں چوں کہ آپ دعوت قبول کر چکے تھے اس لیے آپ تشریف لے گئے. آگے علامہ بدرالقادری مصباحی علیہ الرحمہ کی زبانی سنیں:” لکھنو میں شیر بیشہ اہل سنت علیہ الرحمہ کے زیر اہتمام ایک جلسہ ہوا جس کی صدارت حضور مفتی اعظم ہند قبلہ نے کی، ملک العلما مولانا ظفر الدین صاحب علیہ الرحمہ کے علاوہ اور بہت سے مقررین بھی تھے ، حافظ ملت چوں کہ دعوت منظور فرما چکے تھے، اس لیے وہ بھی پہنچ گئے اگر چہ علالت کے باعث تقریر کرنے کے لائق نہ تھے، حضرت شیر بیشہ اہل سنت مولانا حشمت علی خاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حافظ ملت کی تقریر کا بھی اعلان کر دیا، اور تکفیر وہابیہ نیز اعلیٰ حضرت کے فضائل و مناقب کا عنوان بھی دے ڈالا نیز حافظ ملت نے تقریر کا آغاز ان لفظوں سے کیا:”اعلیٰ حضرت ایک طبیب روحانی ہیں جس طرح کسی جسمانی طبیب کے رو برو اگر کوئی دق کا مریض پہنچ جائے اور وہ طبیب اس کے مرض کے تعین کے بعد نسخہ بھی تجویز کر دے اور بتادے کہ میاں تمھارا مرض بہت مہلک ہے ابھی چوں کہ ابتدائی منزل میں ہے، اگر تم نے یہ نسخہ استعمال کر لیا تو مرض کے دور رس نقصانات سے محفوظ ہو جاؤ گے، ورنہ یہ مرض تمھاری زندگی کا دشمن ثابت ہوگا، مخلص طبیب کا مشورہ سن کر ہوش مند مریض نسخہ کا استعمال شروع کر دے گا اور نہایت نادان ہے وہ شخص ، جو الٹا طبیب کا دشمن ہو جائے، بجنسہ یہی مثال اعلیٰ حضرت کی ہے جنھوں نے روحانی مریضوں کو تو بہ کا نسخہ بتایا مگر نہایت نادان تھے وہ مریض جو اپنے سچے مخلص کے نسخہ پر عمل کرنے کے بجاے اس کے مخالف بن گئے ۔ حافظ ملت نے جس سنجیدگی اور متانت سے اعلیٰ حضرت اور علماے حق کی عالمانہ اور قائدانہ ذمہ داریوں کو سمجھایا اس سے سامعین بے حد متاثر ہوئے ۔ اور ساتھ ہی ساتھ حافظ ملت کی دور اندیشی اور حکیمانہ ذہنیت کے قائل بھی ہوئے. [حیات حافظ ملت-ص:٤١١/٤١٢]
گورکھپور کا جلسہ اور بخار کا حال:
اس سلسلے میں بھی ایک چشم دید کی تحریر ملاحظہ فرمائیں. سید رکن اصدق مصباحی تحریر فرماتے ہیں:”درس کا اول وقت گزر چکا تھا، ہم چارلڑ کے صدر دروازے کے قریب کھڑے تھے، حافظ ملت اپنی درس گاہ سے اتر کر تشریف لائے تو ہم لوگوں نے سلام و مصافحہ کیا، ہم نے عرض کیا، حضور کو بخار بہت زیادہ ہے، فرمایا، ہاں! رات ہی سے طبیعت خراب ہے۔ ہمارے ساتھی نے کہا، ایسی حالت میں سفر حضور کے لیے مناسب نہیں ہے، فرمایا کیا کروں دو مہینہ پہلے دعوت قبول کر چکا ہوں ، اب عین وقت پر نہ جانے سے بے چاروں کی دل شکنی ہو گی ۔(اسی حالت میں آپ جلسہ کے لیے تشریف لے گئے)
گاڑی گورکھپور پہنچی تو استقبال کے لیے لوگ اسٹیشن پر کھڑے تھے، ملنے کے
بعد لوگوں نے کہا، حضور کی طبیعت ناساز معلوم ہوتی ہے، فرمایا، ہاں ! مگر وعدہ کر چکا تھا، آنا ضروری تھا، قیام گاہ پر پہنچ کر لوگوں نے عرض کیا حضور آرام ہی فرمائیں طبیعت
موزوں ہوگی تو آخر میں تشریف لے جا کر دعا فرما دیں گے۔[کچھ گھنٹے آرا فرمانے کے بعد] حضرت ١١/ بجے شب میں بیدار ہوئے وضو کیا ، نماز ادا فرمائی اور ١٢/بجے شب اسٹیج پر تشریف لے گئے۔ حضرت مولانا سید موصوف اشرف صاحب کی عالمانہ تقریر ہو رہی تھی، حضرت کا موڈ بن گیا ان کے بعد کرسی خطابت پر بیٹھے اور پیش رو مقرر کی آیت کریمہ کو عنوان بنا کر سوا گھنٹہ وجد آفریں تقریر فرمائی صلوٰۃ وسلام کے بعد رقت انگیز دعا فرمائی،جب اسٹیج سے اترے تو بخار غائب تھا اور آپ کی طبیعت شاد تھی ۔
یہاں پر کچھ لمحے ٹھہر کر حکایت کے چند پہلوؤں پر غور کر لیجے تا کہ اخلاص کے آئینے میں حافظ ملت کی صورت آپ دیکھ سکیں۔ (١) بخار میں مبتلا تھے مگر درس ناغہ نہ فرمایا: (٢) طبیعت میں اضمحلال تھا مگر اپنی فکر نہ تھی اہل جلسہ کی پریشانی کا خیال تھا۔(٣) مزاج میں گرانی تھی مگر اسٹیج پر تشریف لے گئے اور شائقین کی خاطر تقریر بھی فرمائی۔ ان اللہ لا يضيع أجر المحسنین ۔ پاک و بے ہمتا پروردگار اپنے بندگان خاص کے ایثار کا اجر ضائع نہیں فرماتا ہے، اسٹیج سے اتر تے اترتے اللہ تعالیٰ نے شفا عطا فرمادی.
(آئینہ حافظ ملت. بتصرف-ص:١٤٥/١٤٦/١٤٧)
حرص و طماع سے دور:
بغرض تعویذ ایک مرتبہ بنارس سے دو سیٹھ آئے ہوئے تھے، اور تعویذ لے کر جاتے وقت عرض کیا میرا کام ہو گیا تو حضور کو لے کر حج کو چلیں گے۔
حضرت کے بشرے پر ناگواری کے آثار ظاہر ہوئے، فرمایا الحمد للہ ! میں نے حج کے لیے رقم علاحدہ کر کے رکھ دی ہے. [آئینہ حافظ ملت-ص:٩٩]
ابر رحمت ان کی مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے
از قلم: محمد ابوہریرہ رضوی مصباحی. رام گڑھ. [ڈائریکٹر:مجلس علماے جھارکھنڈ و الجامعۃ الغوثیہ للبنات جھارکھنڈ] 7007591756