از قلم: وزیر احمد مصباحی (بانکا)
شعبہ تحقیق: جامعہ اشرفیہ مبارک پور
تصنیف و تالیف اور تقریر و خطابت کی اہمیت و افادیت ہر زمانے میں مسلم رہی ہے۔ تقریر و تحریر کسی بھی افکار و نظریات کی نشر و اشاعت کے دو اہم ذرائع ہیں، مگر تحریر کا رتبہ تقریر و خطابت سے کہیں اعلی و ارفع ہے۔ تقریر میں کہی گئی باتیں سامعین کے ذہن سے مہینہ دس دن یا پھر بسا اوقات ثانیے بھر کے بعد ہی محو ہو جاتی ہیں، مگر تحریر کا معاملہ مختلف ہے۔ یہاں مصنف کے نوک قلم سے نکلی ہوئی روشنائی برسوں روشنی بکھیرتی رہتی ہیں۔ صرف دورِ مصنف کے قارئین ہی ان کی تحریروں سے افادہ و استفادہ کی راہیں نہیں نکالتے بلکہ کئی پیڑیاں اس کی روشنی میں حسب استطاعت اپنے لیے خطوط راہ کی تعین کرتی ہیں۔ اس حوالے سے آپ قلم کی اہمیت و افادیت کو ہرگز پس پشت نہیں ڈالا سکتے۔ تصنیف و تحریر کے گلشن میں اپنی جودتِ فکر و نظر سے بہار لا کر آپ اسی وقت فضا معطر کر سکتے ہیں جب”قلم” آپ کی رفاقت میں رہے۔ یقین مانیں! ”قلم” تہذیب و ثقافت کے ارتقا کا عظیم ذریعہ ہے۔ کہا گیا ہے کہ:” قلم کی نوک تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہوتی ہے”۔ تلوار سے لگائی گء زخم مندمل ہو سکتا ہے۔ آج نہیں تو کل اس کے نشانات ختم ہو جائیں گے۔ مگر، قلم کی نوک سے جو بھی صحیح وہ غلط فکر صفحہ قرطاس پر منتقل ہوتی ہے وہ صدیوں اپنے اچھے و برے نتائج کی صورت میں قارئین پر اثر انداز ہوتی رہتی ہے۔
تصنیف و تالیف کے باب میں یہ بات بالکل یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ آج سے تقریباً تین یا چار دہائی قبل اہل سنت و الجماعت کے یہاں حد سے زیادہ خاموشی نظر آتی تھی۔ وسیع پیمانے پرغیروں کے فاسد افکار و نظریات کی ترسیل و اشاعت نے آبادی کی آبادی متعفن کر کے رکھ دی تھیں، وہ پریس کی طاقت و قوت سے واقف تھے اور اس کے ذریعے وہ گندے خیالات نشر کر رہے تھے۔ اس میدان میں ہماری اس کمی کا اندازہ اس دور کے معروف عالم دین، رئیس القلم علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کے اس اقتباس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، جسے آپ نے وقت کے تقاضوں پر لبیک کہتے ہوئے تحریر فرمایا تھا۔ آپ لکھتے ہیں:
” ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھیے! آج ہندوستان کا ہر فرقہ قلم کی توانائی اور پریس کے وسائل سے کتنا مسلح ہو چکا ہے۔ اتنا مسلح کہ اس کی یلغار سے ہمارے دین کی سلامتی خطرے سے دوچار ہوتی جا رہی ہے، بلکہ میں بعض ایسی جماعتوں کی نشاندہی کر سکتا ہوں جن کے وجود کا کوئی سر رشتہ ماضی میں نہیں ملتا، لیکن اس اجنبیت کے باوجود صرف قلم کے وسائل کے بل پر وہ روئے زمین پر طوفان کی طرح پھیلتی جا رہی ہیں اور ان کا اجنبی لیٹریچر سیکڑوں برس کی قابل اعتماد تصنیفات کو نہایت تیزی کے ساتھ پیچھے چھوڑتا جا رہا ہے۔ فکری مزاج کی تعمیر میں قلم کو جو اہمیت حاصل ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ فکری استحکام کے بغیر کوئی جماعت طوفانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ پریس ہی کا یہ کرشمہ ہے کہ فتنہ صبح کو جنم لیتا ہے، دوپہر تک جوان ہوتا ہے اور شام ہوتے ہوتے آبادیوں کے لیے دردناک آزار بن جاتا ہے۔
ان حالات میں جب کہ باطل پرستوں کی یلغار تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی ہے، ہم خفتگانِ شبِ غفلت کی نیند اور گہری ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارے یہاں نکتہ چینی کرنے والوں کی کمی نہیں ہے، البتہ تعمیری ذہن رکھنے والوں کی تعداد بہت کم ہیں۔ اجتماعی محاذوں پر جو لوگ کام کر رہے ہیں ان سے پوچھیے کہ کتنی کٹھنائیوں سے انہیں گزرنا پڑتا ہے۔ ساحل پہ کھڑے ہو کر ڈوبنے کا تماشا دیکھنا کوئی بہت بڑا ہنر نہیں ہے”۔ ]مجددین اسلام نمبر، ناشر: تنظیم”پیغامِ اسلام” جامعہ اشرفیہ مبارک پور[
مگر؛ اب اللہ کریم کے فضل و کرم سے ہماری جماعت میں اس کمی کا رونا نہیں رویا جاتا۔ یقینا یہ سب حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مراد آبادی ]۴۹۸۱ء۶۷۹۱ء[ اور رئیس القلم علامہ ارشد القادری]۵۲۹۱ء۲۰۰۲ء[ علیہما الرحمۃ جیسے پاک طینت مرد مجاہد کی جہد پیہم کا نتیجہ ہے کہ اب اہل سنت میں کئی ایک ماہر قلم کار نظر آتے ہیں اور کئی ایک تو ایسے بھی ہیں جو اپنی قلمی جولانیاں بکھیرتے بکھیرتے دار بقا کی طرف کوچ کر گیے ہیں، مگر ان کی تحریریں آج بھی ہمارے لیے علمی و ادبی سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس ضمن میں ازہر ہند جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے فرزندوں نے کافی اہم رول ادا کیا ہے۔ یقیناً جامعہ اشرفیہ کے جشن تاسیس کے ذریں موقع پر دار العلوم اشرفیہ کے ابنائے قدیم کے مجمع کو خطاب کرتے ہوئے حضور حافظ ملت نے جو فرمایا تھا وہ بالکل سچ تھا کہ:
” اشرفیہ کے کاغذی اشتہارات و اخبارات تو شائع نہیں کیے لیکن (حضرت علامہ شریف الحق امجدی، مولانا شاہ سراج الھدی گیاوی، حضرت علامہ ارشد القادری، حضرت علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری، مولانا قمر الزماں اعظمی اور دیگر ممتاز شاگردوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا) یہ سب وہ زندہ جاوید اخبارات و اشتہارات ہیں جو بڑے اہتمام کے ساتھ خون جگر کی سرخیوں سے شائع کیے ہیں”۔ ]حیات حافظ ملت، ص: ۱۳۴[
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ تحریر و قلم کی اہمیت و افادیت اور طاقت و قوت سے خوب خوب واقف تھے۔ آپ نے اپنی مصروف ترین زندگی سے وقت نکال کر کئی ایک کتابیں بھی تصنیف فرمائی ہیں، جس میں ارشاد القرآن، معارف حدیث، المصباح الجدید اور العذاب الشدید وغیرہ کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک موقع پر آپ نے تحریر کے حوالے سے ارشاد فرمایا: ” تقریر سب سے آسان کام ہے، اس سے مشکل تدریس اور سب سے مشکل تصنیف”۔ ]حافظ ملت نمبر، ماہنامہ اشرفیہ مبارک پور،ص: ۱۱۴[
فرزندانِ اشرفیہ کی تحریر و قلم کے حوالے سے یہاں علامہ بدر القادری کا یہ اقتبا
س نقل کر
نا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ:
” حافظ ملت نے قرطاس و قلم کی پرورش کا جو فریضہ انجام دیا ہے اسے دیکھنا ہو تو ہند و سندھ سے لے کر یورپ و امریکہ و افریقہ میں پھیلے ہوئے فرزندان اشرفیہ کے علمی و قلمی کاموں کو دیکھ لیجیے۔ کہاں کہاں ان چراغوں (مصباحی افاضل) سے روشنی نہیں ہے۔ کیسے کیسے علم و فن و ادب کے رمز شناس، کیسے کیسے ادیب و مصنف و شاعر و نقاد، میدان درس و تدریس کے کیسے کیسے نامور شہسوار اور کشور تبلیغ و خطابت کے کیسے کیسے کج کلاہ اور تاجدار پائے جاتے ہیں”۔ ]حیات حافظ ملت،ص:۱۳۴،۰۳۴، ناشر: المجع الاسلامی، ملت نگر مبارک پور[
یقیناً حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی، علامہ ارشد القادری، علامہ عبد الرؤف بلیاوی، بحر العلوم علامہ مفتی عبد المنان اعظمی مصباحی، مولانا شاہ عبد الحق گجہڑوی، مولانا قاضی محمد شفیع اعظمی، حضرت مولانا سید مدنی میاں کچھوچھوی، مولانا یسین اختر مصباحی، علامہ احمد مصباحی، مولانا عبد المبین نعمانی مصباحی، مفتی محمد نظام الدین مصباحی اور مولانا بدر القادری جیسے سرخیل حضرات کا شمار ان فرزندانِ اشرفیہ میں ہوتا ہے جو ہمارے لیے رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں اور آج بھی ہم ان کی قلمی کاوشوں سے اپنے لیے خطوط راہ کی تعین کرتے ہیں۔
یہ بڑی مسرت بخش بات ہے کہ آج کے اس موبائل و انٹرنیٹ کے زمانے میں بھی قلمی میدان میں فرزندانِ اشرفیہ کی تحریری پرکاری خوب عروج پر ہے۔ ہر طرف مصباحی قلم کا جلوہ نظر آتا ہے۔ تصنیف و تالیف کے ساتھ ساتھ رسائل و جرائد اور مجلات میں بھی کئی ایک فرزندانِ اشرفیہ مدیر، نائب مدیر یا پھر مشیر و نگران اعلی کی حیثیت سے شریک ہو کر قوم و ملت کی رہنمائی کا بھرپور فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ آئیندہ سطور میں ایسے ہی کچھ قدیم و جدید فرزندانِ اشرفیہ کے اسماء شامل کیے جا رہے ہیں جنھوں نے کسی رسالے یا ماہناموں کو زینت بخشی۔ ملاحظہ ہوں:
” (۱)ماہنامہ اسلام، بنارس ]قاری محمد عثمان اعظمی مصباحی[ (۲)فیض الرسول، براؤں شریف]مولانا صابر القادری، نسیم بستوی، مولانا محمد احمد مصباحی مبارک پوری[ (۳)پندرہ روزہ جام کوثر،کلکتہ(۴) ماہنامہ جام نور، کلکتہ (۵) ماہنامہ رفاقت، پٹنہ ]ان تینوں کے مدیر علامہ ارشد القادری مصباحی رہے[ (۶) ماہنامہ نمائندہ، الہ آباد ]مولانا سید شمیم گوہر الہ آبادی مصباحی[(۷) ماہنامہ اشرفیہ مبارک پور ]مولانا مبارک حسین مصباحی[ (۸) ماہنامہ اعلی حضرت، بریلی]مولانا نسیم بستوی مصباحی (۹) پندرہ روزہ شان ملت، پٹنہ]قاری محمد عثمان اعظمی مصباحی[ (۰۱) ماہنامہ الدعوۃ الاسلامیہ، انگلینڈ ]مولانا قمر الزماں اعظمی مصباحی[ (۱۱)پندرہ روزہ ریاض عقیدت،کونچ جالون]مولانا اسلم بستوی[ (۲۱)ہفت روزہ تاجدار، ممبئی ]مولانا اسلم بستوی مصباحی[ (۳۱) سالنامہ المصباح، مبارک پور ]مولانا سید اصغر امام مصباحی[ (۴۱)سہ ماہی کوثر، مبارک پور ]مولانا نوشاد عالم غازی پوری مصباحی[ (۵۱)سہ ماہی احساسات،سکھٹی مبارک پور ]مولانا محمود احمد مصباحی مبارک پوری[(۶۱) ماہنامہ رضائے مصطفے،بریلی]مولانا محمد حنیف خاں رضوی مصباحی[(۷۱) ماہنامہ جام شہود، کلکتہ ]مولانا سید رکن الدین اصدق مصباحی[(۸۱) وائس آف اسلام ]مولانا بدر القادری مصباحی[(۹۱) ماہنامہ حجاز،لندن]مولانا قمر الزماں اعظمی مصباحی[(۰۲) ماہنامہ حجاز جدید،بھیلی]مولانا یسین اختر مصباحی[(۱۲) ماہنامہ کنزالایمان،دہلی]مولانا یسین اختر مصباحی[(۲۲)The Gift]مولانا فتح احمد بستوی مصباحی[(۳۲) سالنامہ تجلیات رضا،بریلی شریف]مولانا حنیف خاں رضوی مصباحی[”۔
(فروغ رضویات میں فرزندانِ اشرفیہ کی خدمات،ص:۴۴،ناشر: تنظیم پیغامِ اسلام، طلبہ اشرفیہ)
مجلس برکات، جامعہ اشرفیہ مبارک پور کا قیام:
آج سے تقریباً بیس برس قبل درس نظامی اور اس کے علاوہ دیگر موضوعات پر شائع ہونے والی اکثر وہی کتابیں بازار میں دستیاب ہوتی تھیں جو غیر شائع کرتے تھے، ان کی شائع کردہ کتابوں میں بہت ساری خامیاں راہ پا جاتیں، حاشیہ کا بھی التزام نہیں ہو پاتا، مگر پھر بھی ہم ان کے ہی مکتبوں سے شائع شدہ کتابیں پڑھنے پر مجبور تھے۔ اہل سنت کے یہاں درس نظامی کی کتابوں کی اشاعت عموماً بند تھی۔ لیکن یہ اللہ کریم کا فضل و احسان ہے کہ اسی ضرورت کے پیش نظر سن ۱۰۰۲ء/ میں خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف کے سجادہ نشین پروفیسر سید امین میاں مارہروی کی سرپرستی میں جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں ایک شعبہ بنام ” مجلس برکات” کا قیام عمل میں آیا۔ جس کے تحت باضابطہ درسی کتابیں شائع کراکر مدارس اہل سنت میں پہنچائی جانے لگیں۔ اس کے تحت ان کتابوں پر جن میں حاشیہ کی ضرورت ایک زمانے سے محسوس کی جا رہی تھی، مختلف ماہرین فرزندانِ اشرفیہ نے حواشی رقم کرنے کا کام کیا اور اسے جدید رنگ و آہنگ کے ساتھ شائع کرکے اس بڑی کمی کو پر کرنے کا کام کیا۔ الحمد للہ تصنیف و تالیف، حاشیہ نگاری اور نشر و اشاعت کا یہ حسن سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔اور اس کے علاوہ متعدد موضوعات پر بھی کتابیں شائع کرکے منظر عام پر لائی جا رہی ہیں۔ مجلس برکات کے علاوہ بھی ملک و بیرون ملک کئی ایک تحریری و اشاعتی اداروں کا قیام عمل میں آیا ہے، جن کے تحت تسہیل و تخریج اور ترتیب جدید کے ساتھ کتابیں منصہ شہود پر لائی جا رہی ہیں۔ اشرفیہ کے اوائلی دور میں وجود پانے والا ” سنی دار الاشاعت” مبارک پور نے یقیناً چراغ کا کام کیا ہے، اس کی لو سے جن سینکڑوں چراغوں نے بھی سر لڑانے کا کام کیا ان کی شعائیں پھر رفتہ رفتہ اس قدر اعلی پیمانے پر پھیلتی گئیں کہ آج {الحمداللہ} تصنیف و تالیف اور تحریر و قلم کے میدان میں ہر طرف بہاریں ہی نظر آتی ہیں۔ ان تصنیفی،تالیفی و اشاعتی اداروں کی،جن کہ تحت متذکرہ بالا تمام کام بحسن و خوبی انجام پا رہے ہیں؛ ایک مختصر مگر جامع فہرست دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کا ارادہ ہے تو پھر سالنامہ باغ فردوس سن ۹۱۰۲ء میں شائع شدہ نمبر بنام ”فروغِ رضویات میں فرزندانِ اشرفیہ کا کردار” کا صفحہ نمبر:۷۴ کا مطالعہ نفع بخش ہوگا۔
تنظیم”پیغامِ اسلام” کے بینر تلے فرزندانِ اشرفیہ کی قلمی خدمات:
تنظیم” پیغامِ اسلام” علاقائیت کی مرض سے پاک طلبہ اشرفیہ کی ایک بڑی اور مشترکہ تنظیم ہے۔ بہار، جھارکھنڈ، بنگال اور اتر پردیش وغیرہ مختلف ریاستوں کے طلبا اس میں شریک ہیں۔ اس کا قیام مختلف متحرک و فعال طلبہ کی نگرانی میں عمل میں آیا تھا۔ اس کے تحت مختلف دینی و علمی کام سر انجام پانے کے علاوہ ادھر بیتے چند برسوں سے پابندی کے ساتھ ہر سال کسی نہ کسی اہم و حساس موضوع پر ایک ضخیم نمبر کی بھی اشاعت ہو رہی ہے۔ تحریر و قلم سے شد بد رکھنے والے مختلف اونچی جماعتوں کے طلبا کو اس میں مضمون نگاری کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے اور تمام شرکا تحقیق و تفتیش اور مستند حوالہ جات کی روشنی میں مضمون تحریر کر کے اپنی اپنی ذمہ داری کی تکمیل کرتے ہیں۔ اس تنظیم کے بینر تلے اب تک مندرجہ ذیل کتابیں شائع ہو کر اہل علم و دانش سے خراج وصول کر چکی ہیں:
]۱[”مجددین اسلام نمبر”۲۲۴/ صفحات پر مشتمل ہے۔ ]۲[”مجتہدین اسلام نمبر” حصہ اول۵۷۶/صفحات پر مشتمل ہے۔
]۳[”مجتہدین اسلام نمبر”حصہ دوم__۰۶۴/صفحات پر مشتمل ہے۔
]۴[”فروغِ رضویات میں فرزندانِ اشرفیہ کا کردار”__۶۵۶/صفحات پر مشتمل ہے۔
اس کے علاوہ بھی مستقبل قریب میں اسی تنظیم کے تحت اور بھی دیگر قیمتی گوشوں پر خصوصی شمارہ شائع کیا جائے گا تا کہ ہماری عظمت رفتہ کی بازیابی کی کوئی راہ ہموار ہوتا نظر آ جائے۔
عرس عزیزی کے موقع پر طلبہ اشرفیہ کی تصنیفی سرگرمیاں:
طلبہ اشرفیہ کی یہ روایت بھی خوب ہے کہ وہ اپنے دستار کے موقع پر تحریر و قلم سے اپنی دلچسپی و لگن کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہر سال جب ۲، جمادی الآخر کو عرس عزیزی کا انعقاد عمل میں آتا ہے تو طلبہ دعوت نامہ کی صورت میں کوئی کتاب، رسالہ یا کسی اہم کتاب کا ترجمہ ہی ضرور کرتے ہیں۔ اس طرح ہر سال مختلف موضوعات پر درجن بھر سے زائد کتابیں شائع ہو کر اہل ذوق قارئین کی نگاہوں کی ٹھنڈک کے لیے عمدہ سامان بننے کے ساتھ علمی دنیا میں بھی اضافے کا سبب بنتی ہیں۔
یقیناً وہ طلبہ جو اپنے دستار کے موقع پر کوئی تصنیفی کاوش منظر عام پر لاتے ہیں، وہ اس بات کی ضرور نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ ابھی تصنیف و تالیف کے میدان میں اڑان بھرنے کے فراق میں ہیں۔ شاید ان سرگرمیوں سے متعلق طلبہ اشرفیہ کی یہی محنت و لگن ہے جو انھیں دوسرے اداروں کے طلبا سے ممتاز کرتی ہے۔
تصنیف و تالیف کے حوالے سے مذکورہ تمام تر باتیں فرزندانِ اشرفیہ کی بس ایک مختصر سی جھلک تھی۔ یہ موضوع یقیناً تفصیل طلب ہے۔ فرزندانِ اشرفیہ کی تصنیفی و تالیفی سرگرمیوں کا کما حقہ جائزہ لیا جائے تو میرا خیال ہے کہ اس سے ایک دفتر تیار ہو جائے گا۔ اس لیے یہاں یہ ممکن نہیں ہے کہ اس مختصر مقالہ میں ساری باتیں سمو دی جائیں۔ اس موضوع پہ مستقل کام کی ضرورت ہے۔ کاش! کوئی فرزند اشرفیہ شاہینی عزم و حوصلہ کے ساتھ اٹھے اور پوری دیانت و ایمان داری کے ساتھ یہ علمی معرکہ سر کر جائے تو مجھے یقین ہے کہ پھر ایک ایسا انسائیکلوپیڈیا تیار ہو جائے گا جس میں آنے والی نسلیں بھی فرزندانِ اشرفیہ کے روشن چہروں کی جھلک اور ان کے سیال قلم کی تابانی صاف طور پر دیکھ سکیں گی۔ ان شاء اللہ