ازقلم: آصف رضا تنویری
استاذ جامعہ کاملیہ اہل سنت مفتاح العلوم، کلہوٸ بازار مہراج گنج
یوں تو ہمارا سماج ومعاشرہ خود کو مارڈرن اور ترقی یافتہ کہنے میں بالکل بھی جھجھک محسوس نھیں کرتا لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ خام خیالی بھرے رسم ورواج کے دیمک اسے اندر سے اس قدر کھوکھلا کر چکے ہیں کہ آے دن لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھ رہے ہیں۔
تازہ ترین مثال صوبہ گجرات کے احمدآباد شہر میں عاٸشہ نامی مسلم خاتون کا خود کو مہلک دریا کے حوالے کرنے کا ہے،جہاں متاثرہ خاتون سماج کی سب سے بڑی وبا یعنی جہیز کی دجہ سے شوہر اور اس کے گھر والوں کے مظالم کو برداشت کرنے کی تاب نہ لا کر خودکشی جیسے جرم عظیم کی شکار ہو گٸ،خودکشی کتنا بڑا جرم ہے اس کا اندازہ ایک عظیم جنگجو صحابی رسول کے متعلق نبی کریم ﷺ کے اس فرمان سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھیں جہنم کی آگ میں ضرور جلنا ہوگا کیوں کہ وہ خودکشی کر لیں گے،لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر خود کو مارڈرن اور ترقی یافتہ کہلانے والے اس سماج کے لوگ اس طرح کی گندے رسموں رواج کے خاتمے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ کیوں خاموش تماشاٸ بن کے عایشہ جیسی بے شمار مظلوم خواتین کو اپنے ہاتھوں اپنی جان لیتےدیکھ رہے ہیں؟ کیایہ ہمارے مارڈرن سماج کے چہرے پر بدنماداغ نھیں ہے؟؟؟