بنت مفتی عبدالمالک مصباحی، جمشیدپور جھارکھنڈ
ہمارے آقاے کریم – ﷺ – کی بے مثال خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے آپ کو جوامع الکلم اور بدائع الحکم بنا کر مبعوث فرمایا ہے؛ حضور – ﷺ – خود ارشاد فرماتے ہیں، صحیحین کی روایت ہے : "بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْكَلِمِ” یعنی مجھے جوامع الکلم بنا کر بھیجا گیا ہے، میرے الفاظ بظاہر مختصر اور کم ہوں گے لیکن مطالب و معانی کے ذخائر اور معانی کثیرہ پر مشتمل ہوں گے –
اور پھر دیکھنے والوں نے حسن کلام کو دیکھا اور سننے والوں نے شریں بیان کو سنا پھر یوں گویا ہوئے :کَانَ رَسُوْلُ ﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم لَا یَتَکَلَّمُ فِي غَیْرِ حَاجَة، طَوِیْلَ السَّکَتِ، یَفْتَتِحُ الْـکَـلَامَ وَیَخْتِمُهُ بِأَشْدَاقِهٖ، وَیَتَکَلَّمُ بِجَوَامِعِ الْکَلِمِ، کَـلَامُهُ فَصْلٌ لَا فُضُوْلٌ وَلَا تَقْصِیْرٌ، لَیْسَ بِالْجَافِي وَلَا الْمَھِیْنِ…الحدیث۔ (رَوَاہُ التِّرْمِذِيُّ فِي الشَّمَائِلِ وَابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْہَقِيُّ۔)
ترجمہ : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلا ضرورت گفتگو نہ فرماتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طویل سکوت فرمانے والے (یعنی خاموش طبع) تھے، آغازِ کلام اور اُس کا اختتام دہن مبارک کی جانبوں اور کناروں سے ہوتا (یعنی ہر کلمہ کی ادائیگی مکمل طور پر ہوتی)۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلامِ اقدس مختصر مگر جامع الفاظ پر مشتمل ہوتا، نیز کلمات میں باہم مناسب فاصلہ ہوتا (تاکہ سامعین اچھی طرح سُن اور سمجھ سکیں اور یاد رکھ سکیں)، الفاظ نہ ضرورت سے زیادہ ہوتے اور نہ اتنے مختصر کہ بات ہی واضح نہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ سخت مزاج تھے اور نہ کسی کی تذلیل کرتے۔
_یہ تو ایک صحابی رسول حضرت ہند بن ہالہ – رضي الله عنه – کا مشاہدہ ہے ورنہ بے شمار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے حضور – ﷺ – کے کلام کے بے شمارے جلوے دیکھے ہیں اور انھیں بیان کیا ہے کہ آقاے کریم – ﷺ – کا ایک ایک جملہ کتنے وسیع معانی کو سمیٹے ہوئے ہے –
الغرض حضور – ﷺ – کی ہر ہر بات علم و حکمت کا منبع و مخزن ہے جن سے بڑے بڑے دفاتر اور عظیم الشان لائبریاں پُر ہیں؛ لیکن ان میں صرف چالیس ایسی احادیث جو لفظا مختصر اور معنا مفصل اور وسیع ہیں انھیں مع مختصر تشریح کے "الأربعين لصاحبِ جوامع الکلم و الحکم” کے نام سے جمع کرنے کی نیت کی ہے کہ حضور – ﷺ – سے مختلف الفاظ میں یوں مروی ہے : "حَفِظَ عَلٰی اُمَّتِیْ اَرْبَعِیْنَ حَدِیْثًا مِنْ اَمْرِ دِیْنِھَا بَعَثَهُ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیْ زُمْرَۃِ الْفُقَهَاءِ وَالْعُلَمَاءِ” (شعب الایمان) یعنی جو شخص میری امتی تک دینی احکام پہنچانے کے لیے چالیس حدیثیں یاد کرے تو اسے اللہ تعالٰی قیامت کے دن عالماء اور فقہاء کے زمرے میں اٹھائے گا – اور محدثین نے مثلاً محدث دہلوی نے اشعتہ اللمعات جلد اول صفحہ ١٨٦ میں اس حدیث کی یوں وضاحت فرمائی ہے کہ” اس سے مراد لوگوں تک احادیث کا پہنچانا ہے اگر چہ یاد نہ ہو” –
_اسی حدیث پر عمل کرنے اور فضائل و فیوض پانے کے لیے بے شمار علماء و محدثین نے مختلف موضوعات پر مخصوص احادیث یا متفرق احادیث کا "مجموعئہ اربعین” تیار کیا ہے لہٰذا ہم بھی انھیں کی سنت پر عمل کرتے ہوئے چالیس احادیث مع اردو ترجمہ و تشریح پیش کرنے کی کوشش کریں گے – ان شاء اللہ تعالٰی
نوٹ : ہم تشریح میں صرف متن کی مختصر ترین شرح پیش کریں گے سند پر بحث نہ ہوگی؛ اس اختصار کی وجہ یہ ہے کہ قارئین صاحبِ جوامع الکلم – ﷺ – کی جامع باتوں کو پڑھنے کا لطف ملے –
سوشل میڈیا پر ١ ؍ مارچ سے یہ سلسلہ جاری ہوگا – ان شاء اللہ تعالٰی_