از قلم: رمشا یاسین (کراچی، پاکستان)
دھوپ ہے کہ ڈھلتی نہیں۔
آسماں مگرروتا رہا ہے۔
موت کے گھاٹ اپنے ہی اترے ہیں۔
دشمن تو خوش ہوتا رہا ہے۔
معصوم کے سینے پر گولیاں اڑائی ہیں۔
دردندوں کو تم نے آزاد کیا ہے۔
بے گناہ نے کاٹی ہے ناحق سزا۔
گناہ گار کو تم نے رہا کیا ہے۔
اپنوں کی جانوں کے دشمن ہو تم۔
دشمن تو خوش ہوتا رہا ہے۔
یہاں اندھا قانون ہے صاحب۔
یہاں ظالم کو پوچھنے والا کویٔ نہیں۔
محبِ وطن ، بنا ہے گستاخ۔
اور گستاخ ، محبِ وطن ہوگیا ہے۔
دشمن سے کیا لوگے انتقام؟
اپنوں کو تم نے بخشا کہا ں ہے؟
آسماں مگر روتا رہا ہے۔
دشمن تو خوش ہوتا رہا ہے۔
حاکموں کو پڑی اپنی ہی جانوں کی۔
اور عوام مرتی ہے تو مرتی رہے۔
بھوکی رہتی ہے تو رہتی رہے۔
نا انصافیاں ہوتی ہیں تو ہوتی رہیں۔
خون بہتا ہے تو بہتا رہے۔
عصمتیں لٹتی ہیں تو لٹتی رہیں۔
نہیں مگر،حاکم کو کچھ نہ ہو۔
سیٹ نہ جاے ٔ ان کی۔
باتیں تو بہت کرتے ہیں صاحب۔
مگر عمل سے کرنا کچھ نہیں آتا۔
وہ لاشیں لے کر بیٹھے رہے مگر۔
حاکم پہنچ نہ سکا، ڈرتا رہا کہ،
کہیں اس کی موت نہ ہوجاے ٔ۔
لوگ مرتے ہیں تو مرتے رہیں۔
دشمن سے کیا انتقام لوگے؟
اپنوں کو تم نے بخشا کہاں ہے؟
کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے۔
بنا ہوا تو سنبھل نہ سکا ۔
فرقہ واریت اور بٹوارے۔
کافر اور بس کافر کے نعرے۔
ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہیں سب یہاں۔
کشمیر کیسے بنے گا پاکستان؟
مسلماں، مسلماں کا دشمن ہے۔
دشمن سے کیا لوگے انتقام؟
آسمان مگر روتا رہا ہے۔
دشمن تو خوش ہوتا رہا ہے۔