اصلاح معاشرہ

جہیز کے سیلاب نے عائشہ کو موت کی نیند سلا دیا

تحریر: سبطین رضا محشر مصباحی
کشن گنج بہار، ریسرچ اسکالر البرکات انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ

شادی ایک پاکیزہ بندھن ہے اور ایک مقدس رشتہ ہے جو دو مختلف خاندانوں کو آپس میں ملاتی ہے اور مہذب طریقے سے ایک اجتماعی زندگی کا آغاز ہوتا ہے مگر شادی کے بابرکت معاہدے پر جبری جہیز کی مانگ کا ایسا بوجھ لدا ہوا ہے کہ ایک غریب اور متوسط آمدنی والے شخص کے لیے ایک ناقابل عبور پہاڑ بن کر رہ گیا ہے جسے لڑکی کے گھر والے اپنی ساری پونجی کے علاوہ دوستو و احباب یا بینک سے قرض لے کر یا گھر جائداد گروی پر رکھ کر پوری کرتے ہیں اور ذہن یہ بن گیا ہے کہ جب تک جہیز کی ڈیمانڈ کو پورا نہ کیا جائے گویا شادی کے حقوق کو ادا ہی نہیں کیا – معاشرے کا یہ رویہ ناقابلِ برادشت ہے جس نے جہیز جیسی ناسور رسم سے خود کو جکڑ رکھا ہے معلوم ہوا کہ نکاح جو فرحت و خوشی کانان تھا وہ پیچھے چلی گئی اور جہیز جیسی رسمِ بد کے بندھے قواعد میں آگے آگء بڑھ گئےجن کی ذرا خلاف ورزی ہو تو شکوے شکایت اور طعن و تشنیع کا طوفان کھڑا ہوجاتا ہے۔

جہیز ایسا سماجی مسئلہ ہے جس سے واقف تو ہم سب ہی ہیں مگر بد نصیبی یہ کہ اس سے پردہ پوشی اور پہلو تہی بھی ہم ہی کرتے ہیں- اور حقیقی تصویر تو یہ ہے کہ آج کے دور میں شادی کو جن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اس کا مقصد عوام الناس کی رضامندی ہے بھلے ہی خالقِ ارض و سما ناراض ہوجائے – جب کہ اسلام میں نکاح میں آسانی و سادگی کو ملحوظ رکھا گیاہے -خود نبی کریم اور صحابۂ کرام نے جو نکاح کیے وہ انتہائی سادگی و آسان تھے پتا چلا کہ اسلام میں نکاح میں سادگی و آسانی مسنون ہے یہ اور بات ہے کہ مسلمانوں نے شادی و نکاح میں اتنی رسمیں بنا رکھی ہے شادی مشکل سے مشکل ہوکر رہ گئی ہے اور یہ بھی خبر نہیں یہ جہیز جیسی رسمِ بد غیروں کی رسم ہے جو اسلام کے مزاج و منشا سے متصادم ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور نہ اس کی اسلام میں گنجائش ہےمروجہ جہیز ملت اسلامیہ کے لیے ایسا ناسور بن چکا ہے جس کی زد میں اب تک لاکھوں بنت حوا تباہ و ہلاک ہوچکی ہیں اسی جہیز کی جبری مطالبہ نے نہ جانے کتنے گھر برباد کیے ہیں جو آئے دن سوشل میڈیا کی زینت بنتی ہیں صورتِ حال بھی یہی ہے کہ جہیز کا انتظام نہ ہونے کی صورت میں معاملہ طلاق تک پہنچ جاتا ہے -سسرال والے جہیز کی کمی کی صورت میں طعنہ دیتے ہیں نیز معاملہ ہاتھ اٹھانے تک پہنچ جاتا ہے جس کی وجہ سے صنفِ نازک کا جینا دو بھر ہوجاتا ہے اور آخر کار خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے- ایساہی ایک معاملہ بھارت کے ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں عائشہ نامی لڑکی کے ساتھ پیش آیا جسے جہیز کے سیلاب نے سابرمتی دریا میں موت کی نیند سلادیا جس کو جبری جہیز کے مطالبہ نے خوکشی کرنے پر مجبور کیا تھا-واقعہ اس طرح ہے کہ عائشہ کی شادی راجستھان کے جالور کے عارف نامی شخص سے ہوئی تھی – شادی کے چند روز بعد ہی عارف اور اس کے گھر والوں کی جانب سے عائشہ کو جہیز کے لیے ہراساں کیا جانے لگا جس کے لالچ میں عارف عائشہ کو میکے لے جاکر چھوڑ آیا اور واپس گھر جانے کی شرط ڈیڑھ لاکھ روپیے کی شرط پر رکھی،عائشہ کے والد ایک ٹیلر ہیں مگر کسی طرح مذکورہ رقم کا انتظام ہوگیا ،پیسے مل جانے کے بعد عارف اور اس کے گھر والوں نے مزید پیسوں کا مطالبہ کیا اور حسبِ سابق عائشہ کو پھر میکے پہنچا گیا مگر اب پیسوں کا انتظام مشکل تھا لہذا مجبور ہوکر عارف کے خلاف مقدمہ دائر کردیا جس کی وجہ سے عارف نے عائشہ سے بات کرنی بن کردی اور آخر میں دل برداشتہ عائشہ کو عارف سے بات کرنے پر جواب ملا "جاکے کہیں مرجا اور اس کی ویڈیو بھیج دینا” اور مجبور عائشہ نے یہی کیا بعد میں عائشہ کے والد خود کشی کی وجہ جہیز کا مطالبہ بتایا ہے سمجھنے والی بات یہ ہے کہ ہر دن جہیز کی بھینٹ چڑھنے والی اسلام کی دوشیزائیں اور عائشہ جیسی دردناک موت کو گلے لگانے والی بنت حوا کی خبریں مسلم سماج پر زوردار طمانچہ ہے جو جہیز جیسی رسمِ بد کے خاتمہ کا تقاضا کرتی ہے جو مشکل تو ہے مگر ناممکن نہیں
غور کرنے پر معلوم ہوگا اسلام محض کچھ عبادات کو بجالانے کا نام نہیں بلکہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کرتا ہے ، نکاح و شادی سے متعلق اسلام کا حکم اعتدال پر مبنی ہے اسلام نے نکاح کو آسان رکھا ہے یہ معاشرہ کا قصور ہے کہ اس مقدس بندھن پر رسموں کا جوجھ لاد کر اس کے تقدس کو پامال کیا ہے ظاہر ہے جب کسی چیز پر رکاوٹیں عائد کی جائیں یا اس کو مشکل بنایاجائے تو اس کا لازمی نتیجہ بے راہ روی کی صورت میں نمودار ہوتا ہے ،جہیز کے خاتمہ کے لیے حتی الامکان کوشش کی جانی بہت ضرورت ہے تاکہ عائشہ جیسی اور اسلام کی دوشیزائیں غرق نہ ہوتی ہوں_
معاشرے میں دو طرح کے افراد ہوتے ہیں ایک امیر دوسرا غریب ،اول تو بااثر صاحبِ ثروت اور خوش حال لوگ اپنی نکاح و شادیوں کی تقریبات میں حتی الامکان سادگی اختیار کریں اور ہمت کرکے جہیز جیسی رسم کو توڑنے کی کوشش کریں- دوسرا راستہ یہ ہے کہ اگر دولت مند افراد اس طریقِ کار کو نہیں چھوڑتے تو کم از کم محدود آمدنی والے افراد یہ طے کرلیں کہ وہ دولت مندوں کی حرص میں اپنا پیسہ خرچ کرنے کے بجائے اپنی چادر کے مطابق پاؤں پھیلائیں گے اور اپنی استطاعت کی حدود سے آگے نہیں بڑھیں گے ، مذکورہ باتوں کا خیال اور اہتمام کیاجائے تو کافی حد تک ہم جہیز کی قبیح رسم پر قدغن لگاسکتے ہیں اور نمایاں طور پر کمی دیکھنے کو ملے گااور یہ عمل کافی مفید رہے گا

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے