ازقلم: محمد نعمت اللہ قادری مصباحی، مالیگاؤں، ناسک (مہاراشٹرا)
غازی آباد کی تپتی ہوئی سڑکوں پر ایک بچہ چل رہا تھا، اسے پیاس لگی اور دھوپ کی شدت کے سبب اس کی پیاس بھی شدید ہوگئی، سڑک کے کنارے اس کی نظر ایک مندر پر پڑتی ہے اسے امید کی ایک کرن نظر آتی ہے، اپنے ننھے قدموں سے چلتے ہوئے اس امید پر کہ وہاں کوئی سناتن دھرم کا متوالا ہوگا جو اسے چند گھونٹ پانی ضرور پلائے گا کیونکہ اس نے اپنے ہندو دوستوں سے سنا تھا کہ مندر انسانیت کی خدمت کے مرکز کا نام ہے، پیاسے کوپانی کے چند گھونٹ سے سیراب کردینا یقینا انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہے لیکن جونہی وہ پیاسا بچہ مندر پہنچتا ہے تو پانی تو درکنار ، مکوں اور تماچوں سے اس کا ستقبال کیا جاتا ہے اور فورا ہی چوری کی تہمت کا تمغہ بھی اس کے گلے میں ڈال کر وہاں سے بھگا دیا جاتا ہے۔
یہ ہے ان لوگوں کا عمل ہے جو اپنے آپ کو سب سے برتر اور انسانیت کا سب سے بڑا خدمتگار سمجھتا ہے، وہ بچہ چوری کرنے آیاتھا اس کی کیا دلیل ہے؟ اگر وہ چوری کرنے آیا تھا تو پکڑ کر تھانے میں کیوں نہیں پیش کیا گیا؟ محض چوری کا الزام لگا کر اسے مارنے کا جواز اس مندر کے پجاری یا پنڈٹ نے آخر کہاں سے نکالا؟
یہ تو بات ہوئی غیروں کے حوالے سے اب مخاطب ہوں اپنے مسلمان بھائیوں سے ۔
آپ خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی غیروں کی عبادت گاہوں سے دور رکھیں، اولاً تو ہمیں ان کی عبادت گاہوں سے کوئی تعلق ہی نہیں، ثانیا خود کو ذلت پر پیش کرنا نہ تو شرعا درست ہے نہ عقلاً ۔ موجودہ دور کو ہندوتوا، آر ایس ایس اور بی جے پی نے مسلمانوں کے خلاف نفرت سے بھر دیا ہے لھٰذا غیر مسلموں اور خصوصا ہندوؤں سے کسی خیر کی امید رکھنا بہت بعید بات ہے ۔
میں یہ نہیں کہتا کہ سارے ہندو ایک قسم کے ہیں لیکن اکثریت کی ذہنیت کچھ اچھی نہیں ہے ۔ پانی پینا ہو یا کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو کسی گھر، دکان، یاہوٹل وغیرہ چلے جائیں، مندروں وغیرہ میں جائیں گے تو شر پسند عناصر اسے بنیاد بنا کر آپ کو ذلیل بھی کریں اور الزامات کی پوٹلی بھی آپ کے سر دھر دیں گے ۔