غزل

غزل: وہ دیتے ہیں سوالوں کا جواب آہستہ آہستہ

خیال آرائی: فیضان علی فیضان، پاک

وہ دیتے ہیں سوالوں کا جواب آہستہ آہستہ
بنا کے دوں تو پیتے ہیں شراب آہستہ آہستہ

نہیں کہتے کبھی کھل کے تمنا کیا چھپی دل میں
سناتے ہیں مجھے وہ جھوٹے خواب آہستہ آہستہ

نہیں رہتا ہے قابو دل پہ اپنے جب وہ آتے ہیں
ہٹاتے ہیں وہ جب رخ سے نقاب آہستہ آہستہ

گھرا خاروں میں ہے یہ گل نزاکت پہ نہ جانا تم
نہ کرنا جلدی تم توڑو گلاب آہستہ آہستہ

محبت جو بھی کرتے ہیں یہی انداز رکھتے ہیں
دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آہستہ آہستہ

بہت ہی خوبصورت ہیں نہیں ثانی کوئی ان کا
رکھیں بند کھولیں دل کا باب آہستہ آہستہ

بہت ہی ناز ہے ان کو کہ دیوانے ہزاروں ہیں
فیضان کرتے ہیں خون دل جناب آہستہ آہستہ

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے