تحریر: محمد ابوالکلام قاسمی نیپال
قرآن مجید دین اسلام کی مقدس ومذہبی اور مرکزی کتاب ہے، جو پوری انسانیت کے لیے رشد و ہدایت کا ضامن ہے،جس میں دنیا وآخرت کی فلاح و بہبود، کامیابی و کامرانی اور ہدایت و رہنمائی کا سامان فراہم ہے،یہ کسی مخلوق کی تصنیف وتالیف نہیں بلکہ یہ خالق کائنات کی دائمی و لازوال کتاب ہے، جسے روح القدس کے ذریعہ سید ولد آدم،امام الانبیاء، فخر دو جہاں حضرت محمدمصطفی ﷺ کے قلب اطہر پر نازل فرمایا۔
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید ہر قسم کی تحریفات و ترمیمات اور شکوک وشبہات سے پاک ہے، قرآن مجید میں آج تک کسی طرح کی کوئی بھی کمی بیشی نہیں ہوسکی اور نہ ہوسکتی ہے،اسے دنیا کی واحد محفوظ کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، قرآن مجید اور دیگر کتابوں کے مابین محفوظ و عدم محفوظ ہی کا بنیادی فرق ہے،کیونکہ قرآن مجید کی تحفظ و بقاء کی ذمہ داری خود خداوند قدوس نے لے رکھی ہے، قیامت تک اس کے اندر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی، خود صاحب قرآن حضرت محمد رسول اللہﷺ کو بھی اپنی طرف سے اس میں ترمیم و تنسیخ یا کمی وبیشی کرنے کا اختیار نہیں ہے،امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ قرآن مجید ہر طرح کی ظاہری و معنوی تحریفات سے پاک ہے،مسلمانوں کے تمام فرقوں میں سے کوئی ایک بھی من حیث الفرقہ تحریف کے قائل نہیں ہیں، لیکن گزشتہ چند دنوں قبل شیعہ سنی وقف بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی نے سپریم کورٹ میں قرآن مقدس کی چھبیس آیتوں کے متعلق ایک عرضی داخل کیا کہ ان آیات کو حذف کردیا جائے جن میں یہود ونصاریٰ اور مشرکین سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے، جب کہ قرآن مجید میں تحریف و تبدیل کے مطالبہ سے پہلے انہیں کتاب مقدس کی چودہ سو سالہ تاریخ پر نظرثانی کرلینا چاہیے تھا تاکہ وہ اس طرح کے جاہلانہ مطالبات سے باز رہ سکتے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”ہم نے ہی قرآن مجید کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے“۔ اس آیت مبارکہ کی روشنی میں مسلمانوں کو یہ اطمینان رکھ لینا چاہیے کہ کوئی بھی ملحد یا فسطائی تنظیموں سے منسلک شیطانی طاقت قرآن کی آیات کو حذف کرنے کی جسارت تو کجا اس کا ایک حرف بلکہ ایک نقطہ بھی تبدیل نہیں کرسکتا۔
لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ قرآن مجید کو اپنی زندگیوں میں عملی طور پر نافذ کرکے دشمنان اسلام کو منہ توڑ جواب دیں، یہ ایک گہری سازش ہے اہل مغرب یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ہم اکیلے قیامت تک کوشش کرلیں پھر بھی قرآن مجید کا ایک نقطہ بھی تبدیل نہیں کرسکتے، اس لیے وہ اپنے ساتھ نام نہاد مسلم دانشوروں کو ملانا چاہتے ہیں جس سے مسلمانوں کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔