نتیجۂ فکر: سرفراز بزمی
سوائی مادھوپور، راجستھان بھارت
09772296970
چاندنی رات تھی جب جھانک کے باہر دیکھا
جو نہ دیکھا تھا کبھی آج وہ منظر دیکھا
چاند تھا خیمہء افلاک پہ تنہا تنہا
دور میدان میں کتوں کا جما تھا جلسہ
چیدہ چیدہ تھے سبھی زیب سریر محفل
اک جہاں دیدہ سگ پیر تھا میر محفل
تختیاں ہاتھوں میں پکڑے ہوۓ منجھلے چھوٹے
قوم کا درد لئے سارے کھرے اور کھوٹے
ایک طوفان دبائے ہوۓ زخمی دل میں
تھے کئ خورد و کلاں ، پیر و جواں محفل میں
ان میں بچےبھی تھےسیانےبھی تھےنادان بھی تھے
سینکڑوں قوم کی حالت پہ پریشان بھی تھے
ان میں شاعر بھی اداکار بھی فنکار بھی تھے
میڈیا والے کئ صاحب اخبار بھی تھے
اپنے الفاظ کے مفہوم کو ناپا تولا
پھر سگ پیر سر بزم اٹھا اور بولا
جاں نثارو ! سگ اصحاب کہف کے بیٹو
خوگر شیوہء تسلیم و رضا فرزندو
جس قدر ظرف ہے جس میں ہمیں اتنا سمجھا
کوئی قطرہ ہمیں سمجھا کوئی دریا سمجھا
غیرت و مہر و مروت کی کہانی تم ہو
قوم کی عظمت رفتہ کی نشانی تم ہو
لاکھ حالات کے دریاؤں میں طغیانی ہو
اپنے آقا کی وفا داری میں لا ثانی ہو
ظلم ہے کوئی ہمیں حرص کا بیمار کہے
ظلم ہے کوئی وفادار کو غدار کہے
گو بہت خوار ہیں ہم لاکھ گنہگار ہیں ہم
آج بھی پالنے والے کے وفادار ہیں ہم
ایک ہم ہی تو یہاں حرص کے بیمار نہیں
کلب زادہ کہو غدار کو ، کیا عار نہیں
وحشتوں نے در و دیوار پہ سائے رکھے
اپنے اطوار مگر ہم نے بچائے رکھے
آج ناموس سگاں پر جو گھڑی آئی ہے
یہ قبیلے کے لئے باعث رسوائی ہے
جڑ رہا ہے جو قبیلے میں نئے فرد کا نام
فطرت کلب ہوئی جاتی ہے اس سے بد نام
بھائیو ! قوم کی توہین ہے ایسا کہنا
کسی رضوی کسی غدار کو کتا کہنا
اپنی غیرت کو بھلا کیسے ڈبو نے دینگے
ہم اسے اپنے قبیلے میں نہ ہونے دینگے
اپنی تذلیل یہاں تک تو نہیں سہہ سکتے
ہم اسے اپنا برادر تو نہیں کہ سکتے
توڑ ڈالی دل مغموم کی رگ رگ تم نے
اب خبر دار ! جو رضوی کو کہا سگ تم نے
پیکر صبر و رضا خوئے وفا کی توہین
سارے اسلاف کی توہین ہماری توہین
چند حامی بھی تھے اظہار کی آزادی کے
پکش میں آگئے فوراً سگ فریادی کے
بولے کتوں کو بڑائی کا تکبر توبہ
آدمی زاد سے اس درجہ تنفر توبہ
سن کے یہ بات غضبناک ہوئے اور بولے
پہلے تولے کوئی الفاظ ، زباں پھر کھولے
بس سلیقہ ہے نری قافیہ پیمائی کا
تھوڑا احساس بھی ہوتا غم رسوائی کا
غار والوں کی رفاقت کے سزاوار ہیں ہم
منھ سنبھالو ! کہ بنی ورثہء ابرار ہیں ہم
ذکر فرما کے ہمارا ابد آباد کیا
ہم پہ قرآن کا احساں کہ ہمیں یاد کیا
جیسے تم جیتے ہو کیا ہم بھی گزارہ کرلیں
کیسے قرآن کے دشمن کو گوارہ کر لیں
کام آسان نہیں دہر میں ہم سا ہونا
ایک رضوی کو میسر کہاں کتا ہونا
دل سے نکلا کہ تری بات میں دم ہے کتے
آنکھ بزمی کی اسی بات پہ نم ہے کتے