تحریر: شاہ نواز عالم مصباحی ازہری
بانی وسربراہ اعلی جامعہ حنفیہ رضویہ
مانکپور شریف کنڈہ پرتاپ گڑھ
9565545226
اسلام دین فطرت اور مکمل ضابطۂ حیات ہے، جس میں تمام مصالح انسانی اور اس کے تقاضوں کا پورا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔ یہ روئے زمین پر آیا ہی اس لئے کہ پوری کائنات کو خدائی نظام پر چلائے۔ رب العالمین نے اس عظیم الشان نظامِ حیات کی بقاء کے لئے قرآن جیسی مقدس کتاب نازل فرمایا اور ’’انا لہٗ لحافظون‘‘ فرماکر قیامت تک کے لئے اس کی حفاظت کا اعلان فرمادیا۔ پھر رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو برگزیدہ رسول اور معلم کائنات بناکر ختم نبوت کے تاج سے سرفراز فرمایا، تاکہ آپ کی مقدس تعلیمات پر ایمان لاتے ہوئے اسے اپنی زندگی کا مرکزومحور بناکر لوگ اپنی منزل مقصود کو پاسکیں۔
حیاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جب بھی صحابۂ کرام کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حل فرمادیتے۔ اس کے بعد بھی جب تک اکابر صحابۂ کرام موجود تھے، صحبت نبوی سے فیض یافتہ ہونے کی بناء بڑی آسانی سے درپیش مسائل حل فرماتے گئے، لیکن بعد میں زمانہ ترقی کرتا گیا، ضرورتیں بڑھتی گئیں، نئے نئے مسائل پیدا ہوتے گئے، اس لئے حالات کا تقاضہ ہوا کہ کتاب و سنت کی روشنی میں دین کے سارے ذخیرہ کو سامنے رکھ کر جاذب اور دلکش انداز میں نئے مسائل بیان کئے جائیں، جسے عالم، جاہل، عربی اور عجمی ہر ایک بآسانی سمجھ سکیں اور جو مسائل صراحتاً کتاب و سنت اور اقوال صحابہ میں موجود نہ ہوں، علماء کے باہمی غور و فکر اور بحث و مباحثہ سے مستنبط ہوں، تاکہ آنے والی نسلیں پریشانیوں کا شکار نہ ہوں۔
انسانی معاشرت کی وسعت نے اتنی چیزوں کا محتاج بنادیا ہے کہ ایک انسان اگر لاکھ کوشش کرے کہ وہ دوسرے سے مستغنی ہو جائے تو محال ہے۔ مسلمان چوں کہ عبادت کے علاوہ معاملات میں بھی شریعت کا پابند ہے، اس لئے اسے عبادات کے علاوہ معاملات میں بھی قدم قدم پر لحظہ بہ لحظہ احکامِ شریعت کی ضرورت ہے۔ مثلاً عبادات ہی پر اگر غور کیا جائے تو اس کے فروغ و جزئیات اتنے کثیر ہیں کہ ہر انسان کو اس کا مکلف کرنا کہ وہ پورا قرآن مجید مع معنی و مطالب حفظ کرلے اور تمام احادیث کو مع اسناد یاد رکھے، دشوار اور تکلیف دہ ہے، اس لئے ضروری ہے کہ ایک طبقہ علم دین کی تحصیل کرے اور پھر اس کی نشر و اشاعت کرے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’ہر گروہ سے ایک جماعت فقہ حاصل کرے‘‘۔ (سورۃ النحل۔۴۲)
رہ گئے عوام تو انھیں یہ حکم ہے کہ ’’علم والوں سے پوچھو اگر تمھیں علم نہیں‘‘۔ عوام کو اس کا مکلف کیا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد علماء کی اطاعت کریں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ کا حکم مانو اور رسول کا اور تم میں جو حکم والے ہیں ان کا حکم مانو‘‘۔ (سورۃ النساء)
اس لئے ضروری ہے کہ امت کے جن علماء کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت اور استطاعت دی ہے، وہ قرآن و احادیث کے حفظ و ضبط کے ساتھ ساتھ ان کے معانی و مطالب سے کماحقہٗ واقف ہیں اور ان کے ناسخ و منسوخ کو جانتے ہیں اور جن میں اجتہاد و استنباط کی پوری قوت ہوتی ہے، وہ خداداد قوتِ اجتہاد سے احکام شرعیہ کا ایسا مجموعہ تیار کردیتے ہیں کہ ان میں صریح احکام مذکورہ ہوتے ہیں۔ اس ضرورت کو سب سے پہلے امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے محسوس کیا اور آپ نے اپنی پوری خداداد صلاحیت کو قرآن و احادیث اور اقوال صحابہ سے مسائل کے استخراج و استنباط میں صرف فرمایا۔
علم فقہ کا سیکھنا فرض عین بھی ہے اور فرض کفایہ بھی۔ اتنی معلومات حاصل کرنا ہر شخص کے لئے ضروری ہے، جن کی دین میں ضرورت واقع ہوتی ہے، وہ فرض عین ہے۔ زائد حاجت اور دوسروں کے نفع کے لئے حاصل کرنا فرض کفایہ ہے۔ (مصباح الفقہ، حصہ اول)
علم فقہ کا فن عقلی علوم و فنون کی طرح خود ساختہ نہیں ہے، بلکہ قرآن و حدیث میں اس کی بنیادیں موجود ہیں۔ قرآن کے ساتھ علم فقہ کا اتنا گہرا تعلق ہے کہ فقہ کا لفظ بھی قرآن ہی سے لیا گیا ہے۔ قرآن مقدس نے صراحت کے ساتھ اہل ایمان کو تفقہ کی دعوت دی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’مجھے ایک ساعت بیٹھ کر دین کی فقہ (سمجھ بوجھ) حاصل کرنا ساری رات (عبادت میں) بسر کرنے سے زیادہ محبوب ہے‘‘ (دارقطنی،ج:۳) اس تفسیر کی روشنی میں علم فقہ خیر کثیر ہے اور فقہاء کرام کو اللہ تعالیٰ نے خیر کثیر سے نوازا ہے۔ اسی لئے سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ہر چیز کا ستون ہوتا ہے اور دین اسلام کا ستون فقہ ہے‘‘۔ (فیضان شریعت۔۸۱۰)
حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’حکمت (یعنی تفقہ فی الدین) اہل شرف کے شرف کو بڑھاتی ہے، غلام کا درجہ بلند کرتی ہے اور اسے شاہوں کی مجلسوں میں بٹھا دیتی ہے‘‘ (احیاء العلوم۔۸۰) علامہ شامی فرماتے ہیں کہ ’’فقہ کی اس سے بڑھ کر اور کیا فضیلت ہوگی کہ فقہ کی کتابوں کو صرف دیکھنا ہی نماز تہجد سے افضل ہے اور فقہ کا پڑھنا قرآن کے زائد از حاجت کے پڑھنے سے بہتر ہے، کیونکہ فقہ کا تعلم بقدر حاجت فرض عین ہے اور زائد از حاجت کفایہ اور قرآن کا تعلم بقدر حاجت فرض اور زائد حاجت سنت ہے اور فرض سنت سے افضل ہوتا ہے‘‘۔ (حدائق الحنفیہ۔۳۵)
چوں کہ فقہ کا مطلب احکام و مسائل شریعت سے واقفیت حاصل کرنا اور ان پر عمل کرنا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ درحقیقت فقہ ہر مسلمان کی بنیادی ضرورت ہے، اس لئے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ فقہ کا علم حاصل کرے۔ پورا نہ سہی تو بقدر ضرورت حاصل کرے، تاکہ اپنے ایمان کا تحفظ کرسکے اور اسے فلاح دارین نصیب ہو۔