اللہ جواد وکریم ہے جودوکرم کے دریا بہاتا ہے اور بخششیں فرماتا ہے۔ وہ کسی کو دینا چاہے توکوئی اُسے روک نہیں سکتا ہے اور وہ کسی سے روک لے، تو کوئی اُسے دے نہیں سکتا۔بندے کا اپنے رب کے سامنے خشوع وخضوع کے ساتھ احکامات الٰہی کی تکمیل کرنا، خالق کائنات کی حمد و ثناء اور تعریف وبڑائی بیان کرنا، اور اپنی محتاجی،بے بسی و بے کسی کا اظہار و اقرار کرنا عبادت ہے، اور دعاکو عبادت کامغزاور جوہر کہا گیا ہے۔ہر انسان کا آخری سہارا اللہ تعالیٰ کی ذات ہے،جب ضرورتیں انتہاء کو پہنچ جائیں اور مشکلات و مصائب سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہ آئے، تو ایسے میں دعا ہی سے دل کی تسکین ہوتی ہے۔
دعا ایک عظیم نعمت اور انمول تحفہ ہے، اس دنیا میں کوئی بھی انسان کسی بھی حال میں دعا سے مستغنی نہیں ہوسکتا، دعا اللہ کی عبادت ہے، دعاانبیاء کرام اور متقی بندگان خدا کے اوصاف حمیدہ میں سے ایک ممتاز وصف ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے باعزت تحفہ ہے،حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں،دعا سے بڑھ کر اللہ تعالی کے یہاں کوئی چیز باعزت نہیں۔ دعا اللہ تعالی کے یہا ں بہت پسندیدہ عمل ہے،اللہ سے اس کا فضل مانگو کیوں کہ وہ اپنے سے مانگنے کو پسند کرتاہے۔ سیدنا علی المرتضیٰ ؓ فرماتے ہیں اللہ کے نزدیک زمین پر محبوب ترین عمل دعا ہے۔اور ایک مقام پر فرماتے ہیں دعا مومن کے لئے ڈھال اور نگہبان ہے۔ایک حدیث قدسی میں،حضرت ابو ذر غفاریؓ سے مروی ہے، اللہ تعالی ٰ فرماتا ہے،اے میرے بندو!میں نے خود پر ظلم کو حرام قراردے لیا ہے، اور اسے تمہارے لیے بھی حرام ٹھہرادیا ہے، لہذا ایک دوسرے پر ظلم وستم نہ کرو۔ اے میرے بندو!ہر ایک گمراہ ہے، مگر جسے میں ہدایت عطا کردوں، لہذا مجھ سے ہدایت طلب کرو۔ میں تمہیں ہدایت سے نوازوں گا۔ اے میرے بندو! تم سب لوگ بھوکے رہوگے اگر میں نہ کھلاؤں، لہذا تم مجھ سے کھانا مانگو، میں تمہیں کھلاؤں گا۔ اے میرے بندو! تم سب لوگ ننگے رہو گے اگر میں تمہیں نہ پہناؤں، لہذا مجھ سے پہناوے مانگو، میں تمہیں پہناوے عطا کروں گا۔ اے میرے بندو!تم سب رات دن گناہ کرتے رہتے ہو، اور میں تمام گناہوں کو بخش سکتا ہوں، لہذا تم مجھ سے اپنے گنا ہوں کی بخشش مانگو، میں تمہیں بخش دوں گا۔حدیث کے آخر میں ربِّ کریم فرماتا ہے:اے میرے بندو!جنات وانسان کے اوّلین وآخرین ایک ہی جگہ جمع ہو کر مجھ سے مانگیں اور میں ہر ایک کو اس کی مانگی ہوئی چیز عطا کردوں تو بھی میرے خزانے میں اتنی بھی کمی نہیں آئیگی جتنی کمی سمندر میں سوئی ڈبو کر اٹھا لینے سے واقع ہوتی ہے۔ دعا کرنا انبیائے کرام کی سنت ہے ہر نبی نے ہر حال میں دعا کی ہے قرآن مجید میں انبیا ئے کرام کی بہت سی دعاؤں کو محفوظ کیا گیا ہے۔سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے زندگی کے ہر عمل میں دعا کرنے کا حکم دیا ہے۔لہٰذا ضروری ہے کہ کبھی بھی دعا میں کوتاہی نہ برتی جائے بلکہ ہمہ وقت دعائیں کرتے رہنا چاہیے اور ایک دوسرے کو دعا کی تلقین بھی کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ زمان و مکان کا خالق و مالک ہے، تمام اوقات اور مقامات اسی کے ہی پیدا کردہ ہیں، ان میں بعض اوقات و مقامات ایسے ہیں جن میں کی جانے والی دعاؤں کو قبولیت کا درجہ بہت جلد نصیب ہوتا ہے۔رات کو بیداری کے وقت، تہجد کے وقت، اذان اور جہاد کے وقت، اذان و اقامت کے درمیانی وقت،فرض نمازوں کے بعد،سجدے کے وقت،سورج ڈھلنے کے بعد، آزمائش اور پریشانی کے وقت،مظلومیت کے وقت،مریض کی عیادت اور جنازے کے وقت اوربارش برسنے کے وقت ساتھ ہیں چند مقامات ہیں رکن و مقام ابراہیم کے درمیان، بیت اللہ شریف کے اندر، صفا و مروہ پر، میدانِ سعی، میدانِ عرفات، مزدلفہ، منٰی، عقب مقام ابراہیم، اولیاء وصالحین سے منسوب مقامات ان کے آستانے و خانقاہیں وغیرہ۔مولانا ممشاد پاشاہ نے مزید کہا کہ اپنی اور دوسروں کی اصلاح و کامیابی، دائمی خیر و بھلائی، مصیبتوں اور عقوبتوں سے تحفظ، اور موجودہ مصائب وکورونا اوردیگر برے امراض سے کے نجات کا اہم طریقہ یہی ہے کہ اللہ تعالی سے اخلاص وللہیت، خشوع و خضوع،دلی توجہ اور گڑگڑاکے ساتھ دعا کی جائے، کیونکہ اللہ تعالی دعا کو بہت پسند فرماتا ہے، اور دعا مانگنے کا حکم بھی دیتا ہے، دعا ئیں موجودہ حالات و احوال اور پیش آمدہ مصائب و مشکلات کے لیے بہترین اِکسیر ہیں۔کرونا کاقہر پھر شروع ہوچکا ہے،ممکنہ احتیاطی تدابیر لازم کرلیں،فیس ماسک کا استعمال اور سماجی فاصلہ برقرار رکھیں۔آخر میں کرونا سے متاثر اور دیگر امراض میں مبتلا افراد کی صحت کاملہ و عاجلہ کے لئے دعا کی گئی۔
از افادات: (مولانا) سید محمد علی قادری الہاشمی