تعلیم

جامعہ عربیہ ہتھوڑا باندہ کے قیام کا محرک اور اس کا ابتدائی و ابتلائی دور

حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد صاحب باندوی(رحمۃ اللہ علیہ)

قارئین! پیش نظر اوراق آپ کی خدمت مین”جامعہ عربیہ ہتھوڑا باندہ”کے تعارف اور اسکی دینی، علمی، تبلیغی خدمات کےسلسلےمیں پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہاہوں- آج سےنوسال قبل غالبا ١٩٥٠ء کی بات ہے
میں مدرس اسلامیہ فتحپور میں مدرس کی حیثیت سے کام کررہے تھے کہ اچانک ضلع باندہ میں فتنئہ ارتداد رونماں ہوا اور چند مسلمان غیر مسلموں میں چلے بھی گئے
میں نے جب یہ حالات دیکھا تو بڑا صدمہ ہوا اورمیں نے محسوس کیا کہ علاقہ میں دین کی تبلیغ کا کوئ انتظام نہ ہونے ہی کا نتیجہ ہے ،اسی تاثر کی بنا پر میں مدرسہ اسلامیہ فتحپور سے استعفی دےدیا
اور ضلع باندہ میں آکر تبلیغی طور سے اسکے مختلف حصوں میں گشت لگاتا رہا ، اس گشت کے دوران تجربہ ہوا کہ علاقہ میں رہنے والے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد دین سے بالکل ناواقف اور بے خبر ہے وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اسلام کیا ہے ؟ مسلمان کسے کہتے ہیں؟ کلمہ طیبہ کیا چیز ہے? اسی بے خبری اور جہالت کا نتیجہ ہے کہ کفر اور اسلام میں امتیاز نہیں کرسکتے ہیں اور آسانی سے کفر کے سیلاب میں بہ سکتے ہیں اسلئے دل میں یہ داعیہ پیدا ہوا کہ دینی تعلیم کا کوئ بندوبست کیا جاۓ،چناچہ یہ کوشش کرنے لگا کہ جگہ جگہ دینی مکاتب قائم کۓ جائیں ، اور ایک مرکزی مدرسہ بھی قائم کیا جاۓ تاکہ چھوٹے مکاتب سے ابتدائ تعلیم حاصل کرکے طلبہ مرکزی مدرسہ میں آکر درس نظامی کی تعلیم حاصل کریں اور علم دین کی تکمیل کےلۓ باہر کے بڑے مدارس میں جائیں ، اس مرکزی مدرسہ کے لئے مناسب جگہ کی تلاش میں کافی وقت گزرگیا احباب اور مخلصین نے اس سلسلہ میں کچھ امداد فرمائ اور قصبہ نرینی ضلع باندہ میں ایک مکان خریدا گیا اور اس میں مدرسہ قائم کیا گیا ، کچھ دن وہاں رہ کر تعلیمی کام کیا لیکن حالات کی ناموافقت کی وجہ سے وہاں کا کام نہ ہوسکا ، پھر ضلع کے مختلف مقامات میں کوشش کی گئ لیکن اللہ تبارک وتعالی کی مرضی کہ وہاں بھی کامیابی نہ ہوسکی
پھر آخری درجہ میں اپنے وطن موضع ہتھوڑا باندہ میں (جو ایک بہت چھوٹا سا گاؤں ہے) اللہ کے بھروسہ سے کام شروع کیا ، کچھ طلبہ جن مدرسہ اسلامیہ فتحپور کی مدرسی کے زمانے سے تعلق تھا وہ ہتھوڑا آگئے اور درسی نظامی کی کتابیں پڑھنے لگے بیچارے طلبہ کو سخت تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا ،ایک مقامی صاحب خیر بزرگ کے مکان سے متصل ایک چھوٹا سا کمرہ تھا وہی انکی قیام گاہ تھی اور وہی ان کی درسگاہ تھی ،جب موقع مل سکتا انکو لے کر بیٹھ جاتا اور سبق پڑھا دیتا ، کچھ دنوں تک اس طرح کام چلتارہا ، بالآخر اللہ تبارک وتعالی نے اپنا فضل فرمایا اور کچھ وسعت نصیب فرماٸ اور چند اہل خیر حضرات نے مدرسہ کےلٸے زمین عنایت فرماٸ ، اور اس پر تعمیری کام جاری کردیا گیا اسی دوران میں لوگوں کو کام کی اطلاع ہوگٸ ، باہر سے لوگوں نے اپنے بچے بھیجنے شروع کردٸے ، کچی دیواروں اور کھپریل کے چھپر کے کچھ کمرے تیار ہوگۓ ، انہیں میں باہر سےآنے والے طلبہ کے قیام کا انتظام کردیاگیا پھر آہستہ آہستہ طلبہ کی مدد سے تعمیری کام جاری رہا اور تعلیمی کام بھی توجہ اور مستعدی کے ساتھ ہوتارہا طلبہ نے ہزار مصاٸب برداشت کۓ لیکن ہمت نہیں ہاری انہیں کی مردانہ ہمت کی وجہ سے بحمدللہ آج مدرسہ کے دارالاقامہ میں بارہ بڑے کمرے اور ایک وسیع ہال تعمیری شدہ موجود ہیں یہ سب عمارت کچی دیواروں اور کھپریل کے چھپر کی ہے اسی کے ساتھ ساتھ ان مدررسین کی ہمت لاٸق تحسین وآفریں ہے جنہوں نے سخت مشکلات اور شدید تکالیف کے باوجود عسر وتنگی کے دوران میں مدرسہ کی خدمت کی
اللہ تعالی قبول فرماۓ اور جزاۓ خیر عطافرماۓ _
یہ مقام کچھ ایسی جگہ واقع ہے کہ یہاں ضروریات کی چیزیں دستیاب نہیں ہوتی ہر چیز باندہ کے بازار سے آتی ہے جو یہاں سے دس میل کے فاصلے پر ہے یہاں نہ تو دھوبی ہے نہ درزی نہ ناٸ ہے نہ قصاٸ چنھرا لال پور جو یہاں سے ایک میل پر جانب جنوب میں واقع ہے وہاں سے ناٸ آتاہے آٹا پسانے کےلٸے بھی طلبہ کو وہیں جانا پڑتا ہے ،یہاں لکڑی دستیاب نہیں ہوتی ایک میل پر کھجور کا جنگل ہے ، بیچارے طالبعلم وہاں جاکر کھجوروں کے درختوں پر چڑھ کر لکڑی توڑ تے ہیں ،اکثر وبیشتر کھجور کے کانٹے بدن کے متفرق حصوں میں لگ جاتے ہیں جس سےبہت تکلیف ہوتی ہے ، طلبإ اپنے ہاتھ سے اپنا کھانا پکاتےہیں اور وہ منظر قابل دید ہوتا ، جب مدرسہ کے باورچی خانے میں قطار در قطار بنے ہوۓ چولہوں پر طلبہ اپنا کھانا پکاتے ہیں _ کھانے سے فراغت کے بعد پھر اپنے تعلیمی کاموں میں لگ جاتے ہیں، اور صبح صادق سے دوپھر تک پھر ظہر کے بعد سے عصر تک کی تعلیم حاصل کرتے ہیں، مغرب کے بعد عشإ تک مدرسین کی نگرانی میں باقاعدہ دن بھر کا پڑھاہوا سبق یاد کرتےہیں اگر ان میں کوٸ سبق رہ جاتا ہے اسوقت اس کو پڑھتے ، آخر شب میں پھر اٹھتے اور پڑھتے ہیں ، غرضیکہ اس مشینی ترقی اور تہزیب وتمدن کے دور میں بھی صفہ اور اصحاب صفہ کی زندگی یاددلانے والی ایک مثال یہاں موجود ہے اور علوم نبویﷺ کے شیداٸ اور دین حنیف کے خادم اپنے کام میں لگے ہوۓ ہیں ، خداوندو کریم اپنے فضل وکرم سے ان تمام تکالیف کو دور فرمادیں اور محنت ومشقت سے لگا ہوا یہ پودا روزافزوں پرورش پاۓ (آمین)

ازقلم: محمد احمد ثاقبی
متعلم جامعہ عربیہ ہتھوڑا باندہ( یوپی)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے