خیال آرائی: اشتیاق احمد شوق ممبئی
جنونِ عشق لافانی بہت ہے
نتیجہ،ہائے! لایعنی بہت ہے
جفاکرتا رہا جو پھر اسی پر
لٹانا جان نادانی بہت ہے
کروں تعریف،لاؤں مثل کیسے؟
مرامحبوب لاثانی بہت ہے
زیارت ہوگئی جب سے تمھاری
مری آنکھوں میں تابانی بہت ہے
تکبر تھامجھے عہدِ وفا پر
مگر اب عشق بے معنی بہت ہے
محبت تھی مقدس گر جہاں میں
تو پھر کیوں آج عریانی بہت ہے
وہی بحرِ رواں جو پرسکوں تھا
خفا ہو کر کہ طغیانی بہت ہے
کرم پیہم اسے رکھتا الگ ہے
زمانے میں اگر دانی بہت ہے
چلے جاؤ تم اپنے آشیاں کو
"پرندو! رات طوفانی بہت ہے”
جدائی کےسوالوں میں گھرا یوں
پشیماں شوق پیشانی بہت ہے