اللہ کی تعالیٰ کی رضا کی خاطر اس کے بندوں کی ضروریات کو پورا کرنا اور اس کے دیئے ہوئے مال میں سے خرچ کرنا انفاق فی سبیل اللہ کہلاتا ہے۔ قرآن حکیم میں کئی مقامات پر مسلمانوں کو انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا گیا ہے،تاکہ جو مال ہمیں دنیا میں نصیب ہوا ہے اور جس کو دنیا ہی میں چھوڑ کر ہم جانے والے ہیں اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے آخرت کا سامان تیار کیا جاسکتا ہے۔دنیا کا قاعدہ ہے جو چیز خرچ کی جاتی ہے اس میں کمی واقع ہوتی ہے لیکن انفاق فی سبیل اللہ کا معاملہ اس کے بالکل برخلاف ہے اس کو خرچ کرنے سے اس میں زیادتی ہوتی ہے۔
انفاق کے لغوی معنی ”خرچ کرنا“ اور فی سبیل اللہ کے معانی ہیں ”اللہ تعالیٰ کی راہ میں“۔شرعی اصطلاح میں اللہ کی رضا کے لیے اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کو انفاق فی سبیل اللہ کہا جاتا ہے۔انفاق عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی مال خرچ کرنے کے آتے ہیں۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے اس لفظ کو کثرت سے استعمال فرمایا ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں جب ا نفاق فی سبیل اللہ کا لفظ بولا جاتا ہے تو عموماً لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مالداروں پر ضروری ہے، غریب افراد اس سے مستثنیٰ ہیں، حالانکہ اس لفظ میں غریب وامیر سب شامل ہوتے ہیں۔،یہ سوچ صحیح نہیں ہے کہ ہم مال نہیں رکھتے تو انفاق کیسے کریں گے، مطلوب یہ ہے کہ ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق انفاق کرے اوراس کارخیر میں حصہ لے۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں مقدار نہیں بلکہ اخلاص دیکھا جاتا ہے۔ اخلاص کے ساتھ دیا ہوا معمولی مال بھی بڑی بڑی رقموں پر فضیلت رکھ سکتا ہے۔رمضان تربیت انسانی کا مہینہ ہے اور خاص طور پر اس ماہ مبارک کی مقصدیت کو باقی رکھتا ہے کیونکہ انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے انسان میں جذبہ قربانی، ایثار و بے نفسی اوراستغناء کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ مال و دولت اور دنیا دائمی نہیں بلکہ عارضی شئے ہے، مرنے کے بعد کچھ کام نہ آئے گا، اگر کچھ کام آئے گا تو صرف وہ جو اس نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا، کیونکہ وہ اللہ کے پاس ذخیرہ ہو گیا۔انفاق فی سبیل اللہ کو اتنا ہی محتاط طریقے سے انجام دینا چاہیے، ذرا سی غفلت آپ کی سارے عمل کو بے وقعت بنا سکتی ہے اور آخرت میں الگ اس کے انجام سے دو چار ہونا پڑے گا۔ انفاق کرتے وقت ذرا بھی نام و نمود، شہرت، دکھاوا، یا کسی بھی طرح بلندی کا احساس آپ کے اندر نہ ہو، صرف خدا کی رضا جوئی ہی مقصود ہو تو آپ کا عمل قابل قبول ہوگا ورنہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جذبے کو خوب ابھارا،چنانچہ کتب روایات کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو جگہ جگہ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ،سیدہ کائنات فاطمۃ الزہراؓ، سیدنا ابوبکر صدیق ؓ، سیدنا عمر فاروقؓ، سیدنا عثمان غنی ؓ اور مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ ؓ اور دیگر افراد اہلبیت واصحاب کی نمایاں مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی مسلمان کو ضرورت کے وقت کپڑا پہنائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے سبز لباس پہنائے گا۔ جوشخص کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کچھ کھلائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے پھل کھلائے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی پلائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کی ایسی شراب پلائے گا، جس پر مہر لگی ہوئی ہوگی۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں اپنے کمزوروں کے طفیل سے رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر روز صبح سویرے دو فرشتے زمین پر اترتے ہیں،ان میں سے ایک اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہے،یا اللہ! جو تیری راہ میں خرچ کرے،اسے مزید رزق عطا فرما، اور دوسرا یہ دعا کرتا ہے، یا اللہ! جو اپنے مال کو روک رکھے یعنی تیری راہ میں خرچ نہ کرے،اس کے مال کو تباہ کردے۔ مولانا ممشادپاشاہ نے مزید کہا کہ موجودہ وقت ساری دنیا کے لئے بڑی مصیبت کا وقت ہے، دنیا بھر میں کرونا کی دوسری لہر خطرناک صورت اختیار کرچکی ہے، چھوٹے کاروباری انتہائی کسمپرسی کے عالم میں ہیں، بڑے بڑے کاروباربھی بند ہوچکے ہیں، لاکھوں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں، بیمار صحیح طریقہ سے علاج نہ ہونے،آکسیجن سلینڈر دستیاب نہ ہونے یا پھر علاج کروانے کے لئے روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے موت کا شکار ہورہے ہیں۔افراتفری و نفسانفسی کا عالم ہے ایسے وقت میں انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ ہربندہ جو کچھ بھی کرسکتا ہے دوسرے بندے کے لئے کرے۔ اللہ کے بندوں کی ضروریات کو بلا تفریق مسلک وملت پورا کریں، یہ نہ صرف ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے بلکہ ہماری عبادات کا حصہ بھی ہے، اگر ایسا نہ کیا تو کل قیامت میں ہماری بازپرس ہوگی، اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے مال سے یکساں طور پرسب کوفائدہ پہنچائیں اوررضاء الٰہی کے حصول کی کوشش کریں۔
از افادات: (مولانا) سید محمد علی قادری الہاشمی