مذہبی مضامین

شکریہ ادا کرنا کیسا ہے؟: قرآن وحدیث کی روشنی میں

از قلم: خبیب القادری مدناپوری
بانی: غریب نواز اکیڈمی مدناپور شیش گڑھ بہیڑی بریلی شریف یوپی بھارت 7247863786

کیا شکریہ ادا کرنا واجب ہے؟
اگر شکریہ ادا نہ کریں تو کوئی شرعی گرفت ہے؟
جس نے بندے کا شکریہ ادا نہ کیا تو اس نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا نہ کیا ایسا کہنا کیسا ہے ؟
کیا شکریہ ادا کرنے سے روزی میں برکت ہوتی ہے ؟
کیا شکریہ ادا کرنا سنت ہے ؟
کیا والدین کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیے ؟
شکریہ کے معنی کیا ہیں ؟
شکریہ کیوں ؛ کب اور کیسے ادا کرنا چاہیے ؟
ان سوالات اور کے علاوہ کئی دوسرے سوالات کے جوابات مندرجہ ذیل مضمون میں ملاحظہ فرمائیں

"”شکر کی تعریف "”
(1) شکر کی حقیقت نعمت کا تصور اور اُس کا اظہار ہے،
جبکہ ناشکری نعمت کو بھول جانا اور اس کو چُھپاناہے
تفسیر صراط الجنان میں ہے:
(2) شکر کی تعریف یہ ہے کہ کسی کے اِحسان و نعمت کی وجہ سے زبان، دل یا اَعضاء کے ساتھ اس کی تعظیم کرنا
(3) خوشحالی میں شکر کرنے والا شاکر ہے
جب کہ مصیبت میں شکر کرنے والا شکور ہے
عطاء (یعنی دینے) پر شکر کرنے‏والا شاکر ہے
جبکہ منع (یعنی نہ دینے)پر شکر کرنے والا شکور ہے
(نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،ص 34)
(4) شکر کا لغوی معنی ظاہر ہونا ہے
مراد ہے کہ کسی کے احسان یا انعام کرنے کی وجہ سے اس کی تعریف کرنا
شکران (شکر گزاری) کفران (ناشکری) کی ضد ہے۔ علماء کے ہاں شکر کا معنی ہے کہ پوشیدہ اور ظاہری طور پر نافرمانیوں سے اجتناب کرنا اور فرمانبرداری میں سخت کوشش و محنت کرنا۔

"” مقام شکر قرآن مجید کی روشنی میں "”

اللہ تعالیٰ جل مجدہ الکریم ارشاد فرماتا ہے :
أَنِ اشْکُرْ لِلّٰہِ وَمَنْ یَّشْکُرْ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ o
(لقمان 12)
’اور ہر شکر کرنے والا اپنے ہی نفع کے لیے شکر کرتا ہے اور جو بھی ناشکری کرے وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز اور تعریفوں والا ہے

"”ہدایت””
معلوم ہوا کہ شکریہ ادا کرنے کا نفع اور ثواب اسی پر واپس لوٹ آتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے
وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِأَ نْفُسِھِمْ یَمْھَدُوْنَ o
(الروم:66)
’ اور نیک کام کرنے والے اپنی ہی آرام گاہ سنوار رہے ہیں

رسول اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی مذکورہ بات پر دال ہے

عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ اَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْہٗ سَرَّآئُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہٗ وَإِنْ أَصَابَتْہٗ ضَرَّآئُ صَبَرَ، فَکَانَ خَیْرًا لَّہ
’’ مومن کا عجب حال ہے، اس کا ثواب کہیں نہیں گیا، یہ بات صرف مومن کو ہی حاصل ہے، اگر اس کو خوشی حاصل ہوئی تو شکر کرتا ہے تو اس میں بھی ثواب ہے اور اگر نقصان پہنچا تو صبر کرتا ہے اس میں بھی اس کے لیے ثواب ہے

ایک مقام پر اللہ تعالیٰ جل مجدہ الکریم نے اس طرح ارشاد فرمایا:

وَلَا تَجِدُ أَکْثَرَھُمْ شٰکِرِیْنَ (الاعراف 17)
"اور تو (اے اللہ!) ان میں سے اکثر کو شکر کرنے والا نہ پائے گا”

دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے اس طرح ارشاد فرمایا:

إِعْمَلُوْا اٰلَ دَاوٗدَ شُکْرًا o
(سباء 13)
’’ اے آل داود! اس کے شکریہ میں نیک عمل کرو”

نیز ارشاد ہے
وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ o (سباء 13 )
’’ میرے بندوں میں سے شکر کرنے والے تھوڑے ہی ہیں۔

ایک مقام پر اللہ تعالیٰ جل جلالہ وعم نوالہ نے اس طرح ارشاد فرمایا:

وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّکُمْ
(ابراہیم 7)
اگر تم میرا شکر کرو گے تو البتہ ضرور میں تمہیں زیادہ دوں گا

سبق
یعنی میری نعمتوں کا اگر شکر کرو گے تو تم پر اپنا فضل اور بڑھا دوں گا۔

"” مقام شکر احادیث کریمہ کی روشنی میں "”

حدیث نمبر 1
حضرتِ سیدنا ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ حسنِ اخلاق کے پیکر، نبیوں کے تاجور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جسے چار چیزیں مل گئیں اسے دنیاوآخرت کی بھلائی مل گئی
(1)شکر کرنے والادل
(2)ذکر کرنے والی زبان
(3) آزمائش پر صبر کرنے والا بدن
اور (4)اپنے آپ اور شوہر کے مال میں خیانت نہ کرنے والی بیوی۔
(نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ35)

حدیث نمبر 2
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ الْمَخْزُومِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَدِّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَلَفَ مِنْهُ حِينَ غَزَا حُنَيْنًا ثَلَاثِينَ أَوْ أَرْبَعِينَ أَلْفًا فَلَمَّا قَدِمَ قَضَاهَا إِيَّاهُ ثُمَّ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِي أَهْلِكَ وَمَالِكَ إِنَّمَا جَزَاءُ السَّلَفِ الْوَفَاءُ وَالْحَمْد .
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین کے موقع پر ان سے تیس یا چالیس ہزار قرض لیا، پھر جب حنین سے واپس آئے تو قرض ادا کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اللہ تعالیٰ تیرے اہل و عیال اور مال و دولت میں برکت دے، قرض کا بدلہ اس کو پورا کا پورا چکانا، اور قرض دینے والے کا شکریہ ادا کرنا ہے ۔
(سنن ابن ماجہ 2424) یہ حدیث صحیح ہے

حدیث نمبر 3
عن عاصم بن سويد بن يزيد بن جارية الانصاري، قال ثنا يحيى بن سعيد، عن أنس بن مالك، قال أَتَى أُسيد بن حُضير النَقيبُ الاَشهلي إلى رسولِ الله صلی اللہ علیہ وسلم فَكلمَه في أهلِ بيتِ مِن بَني ظُفر عَامتُهم نِسَاء ، فَقَسَمَ لهم رسولُ الله صلی اللہ علیہ وسلم منْ شَيء قَسَمَه بَينَ الناسِ ، فقال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : « تَركتَنا يَا أُسيد حَتى ذَهبَ مَا في أَيدِينا ، فإذا سمعتَ بطعامٍ قَد أَتَاني فَأتِني فَاذكُر لي أهلَ ذَلكَ البيتِ ، أو اذكر لي ذَاكَ ، فَمكثَ مَا شَاءَ الله ، ثُم أتى رسولَ الله صلی اللہ علیہ وسلم طعامٌ من خيبر :شعيرٌ وَّتمرٌ ، قَسمَ النبي صلی اللہ علیہ وسلم في الناسِ ، ثُم قَسمَ في الأنصار فَأَجزَل قال : ثم قَسمَ في أهل ذلكَ البيتِ فَأجزَل ، فَقَال له أُسيد شاكرًا له : جزاكَ اللهُ أي رسول الله أطيبَ الجزاء أو خيرًا يشكُ عاصم- قال : فَقَالَ له النبي صلی اللہ علیہ وسلم : » وأنتُم مَعشَر الأنصارِ فجزاكم الله خيرًا ، أو أطيبَ الجزاء ، فإنكُم ما عَلمتُ أعفةٌ صُبُرٌ ، وسَتَرونَ بَعدي أَثَرَةً فِي القَسمِ والأَمرِ ، فَاصبِروا حَتى تَلقَوني عَلى الحَوضِ.

عاصم بن سوید بن یزید بن جاریہ انصاری سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں یحیی بن سعید نے انس بن مالک‌رضی اللہ عنہ سے بیان کیا انہوں نے کہا کہ اسید بن حضیر نقیب اشہلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بنو ظفر کے کسی گھر والوں کے بارے میں بات کی جن کی زیادہ تعداد عورتوں پر مشتمل تھی،آپ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌ نے ان کومال عنایت کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسید تم نے تو ہمیں ایسا کر دیا ہے کہ ہمارے ہاتھ میں جو کھش تھا ختم ہوگیا۔ جب تم سنو کہ میرے پاس غلہ آیا ہے تو میرے پاس آجانا اور مجھے ان گھر والوں کی یا ددلادینا ، یا مجھے ان کی یاد دلادینا، جب تک اللہ نے چاہا معاملہ رکا رہا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خیبر سے غلہ آیا جو اور کھجور۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں غلہ تقسیم کیا۔ پھر انصار میں تقسیم کیا تو انہیں خوب دیا ۔ پھر ان گھر والوں میں تقسیم کیا تو انہیں بھی خوب دیا۔ اسیدنے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا : اے اللہ کے رسول! اللہ آپ کو عمدہ یا بہترین جزا دے ۔ (عاصم کو شک ہے) ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: اے جماعت انصار اللہ تعالیٰ تمہیں بھی بہترین یا عمدہ جزادے۔ کیونکہ جہاں تک مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ پاکدامن ،اور صبر کرنے والے ہو، عنقریب تم میرے بعد تقسیم اور معاملات میں ترجیح دیکھو گے ۔تب صبر کرنا حتی کہ حوض کوثر پر تم مجھ سے ملاقات کرو۔
(السلسلۃ الصحیحہ 188) یہ حدیث صحیح ہے

حدیث نمبر 4
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم : مَنْ أُعْطِيَ عَطَآءً فَوَجَدَ فَلْيَجْزِ بِهِ وَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَلْيُثْنِ فَإِنَّ مَنْ أَثْنَى فَقَدْ شَكَرَ وَمَنْ كَتَمَ فَقَدْ كَفَرَ وَمَنْ تَحَلَّى بِمَا لَمْ يُعْطَهُ كَانَ كَلَابِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ .
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو کوئی چیز دی گئی اگر اس کے پاس بھی استطاعت ہو تو بدلہ دے دے اور اگر اس کے پاس استطاعت نہ ہو تو وہ اس کی تعریف کرے کیونکہ جس شخص نے تعریف کی اس نے شکریہ ادا کیا اورجس شخص نے چھپایا اس نے نا شکری کی اور جس شخص نے ایسی چیز کا اظہار کیا جو اسے نہیں دی گئی تو وہ جھوٹ کا لباس پہنےر والے کی طرح ہے۔
(السلسلۃ الصحیحہ 406)
یہ حدیث صحیح ہے

حدیث نمبر 5
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: دَعَوَاتٌ سَمِعْتُہَا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَا أَتْرُکُہَا مَا عِشْتُ حَیًّا سَمِعْتُہُ یَقُولُ: ((اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِی أُعْظِمُ شُکْرَکَ، وَأُکْثِرُ ذِکْرَکَ، وَأَتْبَعُ نَصِیحَتَکَ، وَأَحْفَظُ وَصِیَّتَکَ۔)) (مسند أحمد: ۸۰۸۷)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، چند دعائیہ کلمات ہیں، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سنے، جب تک میں زندہ ہوں، ان کو نہیں چھوڑوں گا، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا: اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِی أُعْظِمُ شُکْرَکَ، وَأُکْثِرُ ذِکْرَکَ، وَأَتْبَعُ نَصِیحَتَکَ، وَأَحْفَظُ وَصِیَّتَکَ (اے اللہ! مجھے ایسا بنا دے کہ تیرا زیادہ شکریہ ادا کروں، کثرت سے تیرا ذکر کروں، تیری نصیحت کی پیروی کروں اور تیری وصیت کی حفاظت کروں)۔
(مسند احمد 5648)
یہ حدیث صحیح ہے

حدیث نمبر 6
عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ اِسْمَاعِیْلَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ اَبِیْ رَبِیْعَۃَ الْمَخْزُوْمِیِّ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِسْتَسْلَفَ مِنْہُ حِیْنَ غَزَا حُنَیْنًا ثَلَاثِیْنَ أَوْ أَرْبَعِیْنَ أَلْفًا فَلَمَّا انْصَرَفَ قَضَاہُ اِیَّاہُ ثُمَّ قَالَ: ((بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ فِیْ أَھْلِکَ وَمَالِکَ، اِنَّمَا جَزَائُ السَّلَفِ الْوَفَائُ وَالْحَمْدُ۔)) (مسند احمد: ۱۶۵۲۳)
سیدنا عبداللہ بن ابی ربیعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غزوۂ حنین کے موقع پر اس سے تیس یا چالیس ہزار درہم قرض لیا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غزوہ سے واپس تشریف لائے تو اس کو قرضہ اداکیا اور دعا دیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی آپ کے اہل اور مال میں برکت دے، ادھار کا صلہ یہی ہے کہ اسے پوراپورا واپس کیاجائے اور اس کی تعریف کرکے شکریہ ادا کیا جائے۔
(مسند احمد 6010)
یہ حدیث صحیح ہے

حدیث نمبر 7
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ لَمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ اللَّهَ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ
حضرت ابوہر یرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ جس نے لوگوں کا شکریہ ادا نہ کیا ، اس نے اللہ کا بھی شکریہ ادا نہ کیا ۔‘‘ ، رواہ احمد و الترمذی ۔
مشکوۃ المصابیح 025
یہ حدیث صحیح ہے

حدیث 8
عَنْ سِنَانِ بْنِ سَنَّۃَ صَاحِبِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((الطَّاعِمُ الشَّاکِرُ لَہُ مِثْلُ اَجْرِ الصَّائِمِ الصَّابِرِ۔)) (مسند احمد: ۱۹۲۲۳)

صحابی ٔ رسول سیدنا سنان بن سنّہ رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شکریہ ادا کرنے والے کھانے والے کا اجر روزہ رکھنے والے اور صبر کرنے والے کی طرح ہے۔
(مسند احمد9089) یہ حدیث صحیح ہے

حدیث نمبر 9
رب ذوالجلال نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء والمرسلین بنا کر بھیجاآپ رات رات بھر عبادت کرتے؛ نعمت کا شکریہ ادا کرنے کے لیے نماز میں اتنا لمبا قیام کرتے کہ آپ کے دونوں قدم مبارک میں ورم آجاتا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ایک دفعہ جب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کھڑے ہوۓ یہاں تک کہ آپ کے دونوں قدم ورم سے پر ہوجاتے ؛ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کچھ آرام بھی کرلیا کریں حالانکہ آپ تو اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یَا عَائِشَۃُ أَفَـلَا أَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا؟
اے عائشہ! کیا میں شکر گزار بندہ نہ ہوجاؤں؟

حدیث نمبر 10
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَلطَّاعِمُ الشَّاکِرُ بِمَنْزِلَۃِ الصَّائِمِ الصَّابِرِ( ترمزی ص2021)

کھانا کھا کر شکریہ ادا کرنے والے کا درجہ صبر کرنے والے روزہ دار کی طرح کا ہے

حدیث نمبر 11
دوسری روایت کے الفاظ ہیں:
اَلطَّاعِمُ الشَّاکِرُ لَہُ مِثْلُ أَجْرِ الصَّائِمِ الصَّابِرِ
(جامع الصغیر 3963)
’’ کھانا کھا کر شکریہ ادا کرنے والے کے لیے صبر کرنے والے روزہ دار کے اجر کی مثل (اجر) ہے

حدیث نمبر 12
نبیٔ مکرم و معظم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
أَلتَّحَدُّثُ بِنِعْمَۃِ اللّٰہِ شُکْرٌ، وَتَرْکُھَا کُفْرٌ وَمَنْ لَا یَشْکُرُ الْقَلِیْلَ لَا یَشْکُرُ الْکَثِیْرَ، وَمَنْ لَا یَشْکُرُ النَّاسَ لَا یَشْکُرُ اللّٰہَ، وَالْجَمَاعَۃُ بَرَکَۃٌ وَالْفُرْقَۃُ عَذَابٌ
( جامع الصغیر 3014)
’اللہ کی نعمت بیان کرنا شکر اور ترک کرنا ناشکری ہے۔جو تھوڑے پر شکر نہیں کرتا وہ زیادہ پر بھی شکر ادا نہیں کرسکتا ۔اور جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرسکتا وہ اللہ کا شکر بھی نہیں کرسکتا اور جماعت باعث برکت ہے اور گروہ بندی باعث عذاب ہے

حدیث نمبر 13
رب ذوالجلال نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء والمرسلین بنا کر بھیجاآپ رات رات بھر عبادت کرتے؛ نعمت کا شکریہ ادا کرنے کے لیے نماز میں اتنا لمبا قیام کرتے کہ آپ کے دونوں قدم مبارک میں ورم آجاتا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ایک دفعہ جب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کھڑے ہوۓ یہاں تک کہ آپ کے دونوں قدم ورم سے پر ہوجاتے ؛ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کچھ آرام بھی کرلیا کریں حالانکہ آپ تو اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یَا عَائِشَۃُ أَفَـلَا أَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا؟
اے عائشہ! کیا میں شکر گزار بندہ نہ ہوجاؤں؟

حدیث نمبر 14
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَلطَّاعِمُ الشَّاکِرُ بِمَنْزِلَۃِ الصَّائِمِ الصَّابِرِ( ترمزی ص2021)

کھانا کھا کر شکریہ ادا کرنے والے کا درجہ صبر کرنے والے روزہ دار کی طرح کا ہے

حدیث نمبر 15
دوسری روایت کے الفاظ ہیں:
اَلطَّاعِمُ الشَّاکِرُ لَہُ مِثْلُ أَجْرِ الصَّائِمِ الصَّابِرِ
(جامع الصغیر 3963)
’’ کھانا کھا کر شکریہ ادا کرنے والے کے لیے صبر کرنے والے روزہ دار کے اجر کی مثل (اجر) ہے

حدیث نمبر 16
نبیٔ مکرم و معظم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
أَلتَّحَدُّثُ بِنِعْمَۃِ اللّٰہِ شُکْرٌ، وَتَرْکُھَا کُفْرٌ وَمَنْ لَا یَشْکُرُ الْقَلِیْلَ لَا یَشْکُرُ الْکَثِیْرَ، وَمَنْ لَا یَشْکُرُ النَّاسَ لَا یَشْکُرُ اللّٰہَ، وَالْجَمَاعَۃُ بَرَکَۃٌ وَالْفُرْقَۃُ عَذَابٌ
( جامع الصغیر 3014)
’اللہ کی نعمت بیان کرنا شکر اور ترک کرنا ناشکری ہے۔جو تھوڑے پر شکر نہیں کرتا وہ زیادہ پر بھی شکر ادا نہیں کرسکتا ۔اور جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرسکتا وہ اللہ کا شکر بھی نہیں کرسکتا اور جماعت باعث برکت ہے اور گروہ بندی باعث عذاب ہے

"”چند نصیحتیں "”
1 مصیبتوں پر بھی شکر کیجئے
2 مختلف اَعضاء سے شکر ادا کیجئے
3 شکرگزاروں کی صحبت اِختیار کیجیے
4 ہر کسی کو شکرکے متعلق بتائیں
5 شکر جسم کے ہر ہر عضو کے کام کرنے پر کریں
شکر اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے لہزا ہر وقت شکرادا کرتے رہیں

اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین

استغفراللہ ربی من کل ذنب واتوب الیہ
لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے