مذہبی مضامین

سکھایا کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

ازقلم: مجیب الرحٰمن، جھارکھنڈ
7061674542

ذیقعدہ کی آخری تاریخ جب سورج دن بھر کی روشنی سمیٹ رہا تھا، اور دھیرے دھیرے غروب کی اور بڑھ رہا، تھا افق پر زردی چھا چکی تھی، اندھیرے دھیرے دھیرے اپنا سایہ ڈال رہے تھے، ستارے اپنی جگمگاہٹ لۓ نکلنے کو بیتاب تھے، ادھر لوگ اپنے اپنے کاموں سے فارغ ہوکر گھر کی راہ لے رہے تھے ، اور بچے مارے خوشی کے بلند ٹیلوں پر، اونچی عمارتوں پر ، گھر کے چھتوں پر چڑھے جارہے تھے کیوں کہ نیا مہتاب طلوع ہونے والا تھا دنیاے انسانیت ایک نۓ چاند کا استقبال کرنے جارہی تھی جن کا سال بھر سے ان کو انتظار تھا ”جی ہاں “ عید الاضحی کا مہینہ شروع ہورہا تھا جو سراسر ابتلا۶ و آزماٸش کا مہینہ ہے ، جو خواہشات کو تج دینے کا مہینہ ہے، ادھر ایک شور سناٸ دی کہ ”ہوگیا چاند “چاند نظر آگیا میں بھاگا بھاگا وہاں پہنچا اور چاند دیکھنے لگا جیسے ہی چاند پر نظر پڑی بے ساختہ زبان پر یہ دعا جاری ہوگی(اللھم اھلہ علینا بالامن والایمان والسلامہ والاسلام ربی وربک اللہ ) چاند نے اس دلدوز واقعہ کی یاد تازہ کردی جوایک باپ اور بیٹے پر مشتمل ہے اورکیوں نہ ہو دنیا میں ایسا کہاں کبھی ہوتا ہے کہ کوٸ باپ اپنے بیٹے کی گردن میں چھری رکھ دے اور اپنی فدا کاری کا ثبوت پیش کرے اور وہ بھی جو بڑھاپے کا سہارا تھا، جس کو بڑی دعاٶں کے بعد حاصل کیا گیا تھا ،اور جس سے بڑھاپے کا سہارا ملنے والا تھا ،اور ایسے میں اس کو مانگا گیا تھا جب باپ کو بڑھاپے کا احساس ہوچلا تھا، اور بے سہارگی کی فکر دامن گیر تھی، بڑی آرزٶں کے بعد ملا بھی تو آزماٸشوں نے آکر گھیر لیا، پہلی آزماٸش یہ ہوی کہ اسے چٹیل میدان جہاں نہ دانہ ہو نہ پانی نہ انسان کے قدم پہنچتے ہوں وہاں چھوڑ آے اس امتحان میں کامیاب ہوے تو اب ایسی آزماٸش میں ڈال دۓ گۓ جس آزماٸش کا دنیا میں کسی نے سامنا ہی نہیں کیا تھا، امتحانات تو بہت لۓ گۓ مگر خلیل اللہ جیسا کسی سے نہیں لیا گیا ،چنانچہ خدا کا حکم آپہنچا کہ اپنے اس بڑھاپے کے سہارے کو قربان کردو حکم سن کر نہ جانے اس باپ کا دل کیسے تڑپ رہا ہوگا، جگر کانپ رہا ہوگا ،بدن لرز اٹھا ہوگا، لیکن شہنشاہ کا حکم تھا کوی چارہ بھی نہیں تھا، در اصل یہی اصل قربانی کی روح تھی ابراہیم اپنی تمام تمناوں آرزٶں اور ہر قسم کے خواہشات کو چھوڑ کر اس بزرگ و برتر کے حکم کے تابع ہو جاے، جب اس بوڑھے باپ نے اپنے سہارے کے سامنے اس کا تذکرہ کیا تو اس سچے اور نیک صالح نے اطاعت شعاری اور فدا کاری کا جو نمونہ پیش کیا وہ دنیا کے کسی تاریخ میں ملنا مشکل ہے، باپ بیٹے کا ہاتھ تھامے بغل میں چھری دباے قربان گاہ کی طرف جارہے ہیں اور بیٹا راضی برضا خوشی خوشی دنیا کو فداکاری کی تعلیم دیتے ہوے اطاعت کا طریقہ سکھلاتے ہوے اور حکم خدا وندی میں سرتسلیم خم کرنے کی تعلیم دیتے ہوے باپ کی اطاعت و وفاداری کا سلیقہ سکھلاتے ہوے قدم بڑھا رہے ہیں کیسا عجیب منظر ہوگا دنیا نے ایسا ماجرا کبھی نہ دیکھا تھا نہ آسمان نے مشاہدہ کیا تھا زمین کا ذرہ ذرہ محو حیرت تھا کہ یہ کیسا امتحان ہے ؟ ہر طرف سے صداٸیں آرہی ہوں گی کہ ابراہیم یہ کیا کرنے جارہے ہو، اس سہارے کو کہاں لیکر چلے ہو، لیکن وہ اس صدا پر کان دھرنے والے کہاں تھے، ان کے اندر تو جذبہ ایثار اور خدای حکم کو بجالانے کا جذبہ کار فرما تھا ،آخر کار اس امتحان میں بھی وہ کامیاب ہوگۓ،
یہ ایک واقعہ تھا جس کو ضبط تحریر میں لانا اور زبان سے ادا کرنا تو بہت آسان ہے لیکن اس واقعہ سے جو پیغام ملتا ہے اور اس قربانی کا جو مقصد ہے اس پر عمل پیرا ہونا مشکل ہے ، اس واقعہ کے ظاہری سطر پر تو بہت ذوق و شوق سے عمل ہوتا ہے اور ہوتا آرہا ہے لیکن اس کے باطنی تقاضوں اوراصل قربانی کی روح پر جو عمل ہونا چاہۓ تھا وہ مفقود ہے اس کی اصل روح یہ ہے کہ بندہ اپنی تمام تر خواہشوں اور تمناٶں کو خدا کی اطاعت و بندگی کیلۓ وقف کردے اور خالص اللہ کے حکم کے تابعدار بن جاے، قدرت کا امت محمدیہ پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے قربانی میں بندوں کی فطرت کا اور انسانی طبع کا پورا پورا خیال رکھا ہے کہ بندہ مال کی قربانی کے ساتھ ساتھ اس سے فطری طور پر فاٸدہ بھی اٹھاے، اس لۓ اس امت محمدیہ کیلۓ قربانی کے گوشت کو کھانی کی اجازت دے دی گٸ، ورنہ پچھلی امتوں کا حال یہ تھا کہ قربانی کرنے کے بعد گوشت کو جنگل میں ڈال دیا جاتا اور پھر آگ آکر اسے راکھ کر دیتی اور یہی اس کی قبولیت کی علامت ہوا کرتی تھی، لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتا تو غیر مقبولیت کی علامت ہوتی غور کرنے کا مقام ہے کہ اگر آج کے دور میں یہ سب کچھ ہوتا تو پورا پردہ فاش ہوجاتا لیکن اللہ نے اس امت کو اس سے بچا لیا، اس لۓ ہر قربانی کرنے والے شخص کو مخلص ہونا چاہۓ اور محض اللہ کی رضا و خوشنودی کیلۓ اور سنت ابراہیم سمجھ کر قربانی کرنی چاہۓ ریا کاری دکھلا وا بالکل نہ ہو کیوں کہ خدا کے یہاں گوشت پوشت کی کوی حیثیت نہیں بلکہ وہ تو خلوص اور اخلاص کو دیکھتا ہے جیسا کہ سورہ ”الحج “میں اشارہ کیا گیا ہے “ اور ایک حدیث میں بھی وارد ہوا ہے کہ بندہ کا وہی عمل قابل قبول ہوتا ہے جسمیں خلوص ہو اس لۓ ہم پر ضروری ہے چونکہ ہم ابراہیم علیہ السلام کی یاد گار منا رہے ہیں تو ومیں اسی جذبہ کے ساتھ اور اسی فداکاری کے ساتھ اور اسماعیل کی جذبہ اطاعت اور اس کی خود سپردگی کو ملحوظ رکھتے ہوے قربانی کرنی چاہۓ ،

یہ فیضان نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھایا کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی،

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے