نتیجہ فکر: شیخ احمد نقشبندی اعظمی
بالیقیں محبوبِ رب ہیں سب سے بہتر خاک پر
لا سکے تو لائے کوئی ان کا ہمسر خاک پر
آرزو رکھتے ہیں دل میں بس یہ عشاقِ رسول
,سایۂ دیوار جاناں میں ہو بستر خاک پر,
دی شہادت کنکروں نے جب رسولِ پاک کی
پھینک کر بو جہل بھاگا سارے کنکر خاک پر
جب ہوا وقتِ ولادت سرورِ کونین کا
آمنہ بی بی نے دیکھا نوری لشکر خاک پر
آسماں کے ماہ و اختر جھک گئے سوئے زمیں
ہو گیا جس دم طلوع بے مثل اختر خاک پر
سلطنت تقسیم کرتے ہیں غلامانِ نبی
جو دکھائی دیتے ہیں مثلِ قلندر خاک پر
جو نکلتا ہے غمِ سرکارِ دوعالم میں اشک
اس کے جیسا آنکھ نے دیکھا نہ گوہر خاک پر
مست رہتا ہے وہ یادِ مصطفی میں ہر گھڑی
ان کی الفت کا لیا جس نے بھی ساغر خاک پر
جو بھی دربارِ رسالت سے پھرے احمد وہ اب
جھولی پھیلائے پھرے کیوں کر نہ در در خاک پر