ازقلم : غلام آسی مونس پورنوی
محترم قارئین!
ہمارے سماج میں جلسوں /کانفرنسوں کی ایسی بھرمار ہے کہ پوچھئے ہی مت، اور جلسے بھی کئی حصوں پر منقسم ہوکر رہ گئے ہیں، شخصی جلسہ، عوامی جلسہ، جوابی جلسہ، وغیرہ وغیرہ، ان جلسوں کی کثرت نے اصل جلسہ کی روح کو مجروح کرکے رکھ دیا ہے، ان جلسوں کی خصوصیات یہ ہیں کہ اس کے انعقاد میں کم سے کم پچاس ہزار تو خرچ ہوہی جاتے ہیں، اور اس میں بازاری نوٹنکی باز خطیبوں، ناہنجار قسم کے نام نہاد شعراؤں، اور ڈرارامے باز نقیبوں کو بلاکر، پوری پوری رات ہاہاہا ٹھٹھی کری اور کرائی جاتی ہے، ناچ ناچ کر نقابت، کمر کو لچکا کر ڈانس کرکے منبر رسول کو مجرا گاہ بنا دیا جاتا ہے، اکثر و بیشتر جلسوں میں نقباء و مقررین کامیڈی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، الاماشاءاللہ
اور ان گوئیے ناہنجار نام نہاد شعراء کی تو پوچھئے ہی مت،
ان لوگوں نے تو ہندی سنیما یعنی بالی وڈ کے نغمات اور گانوں کو مذہبی جلسوں اور کانفرنسوں کے منبروں تک پہنچانے میں کوئی کسر چھوڑی ہی نہیں، گانوں کے طرز و انداز کو کاپی کر کے اپنے آپ کو بالی وڈ کا پکا سچا پیروکار ثابت کردیا،
جب 1913 ء میں دادا پھالکے نے ہندوستان میں سب سے پہلے راجہ ہریش چند پر فلم بنا کر بالی وڈ کی بنیاد رکھی تھی تو، اس وقت اس کے گمان میں بھی یہ نا ہوگا، کہ مسلمانوں کے دینی و مذہبی پروگرام تک ہمارے نغمات کی دھمک پہنچے گی، خیر دادا پھالکے کی نادیدہ خواب کو آج مسلمانوں کے مذہبی رہنما کہلانے والے اور عشق رسالت کے جھوٹے دعویدار ان گویئے نعت خوانوں نے پورا کر دکھایا ہے،
آج ان گویئے قسم کے نام نہاد نعت خوانوں نے بالی وڈ کے سپر ہٹ گانوں کو کاپی کرکے نعت رسول کے الفاظ کو ان گانوں کے ساز و انداز پر ڈھال کر پڑھنا شروع کیا ہے کہ جب وہ شروع ہوتا ہے تو انسانی تصور گنبد خضری کے بجائے ممبئی کی شاہراہوں پر ناچنے والی رنڈیوں کے طرف مائل ہوجاتا ہے، اور عشق و جوانی کے حسین باغ وبہار اس مذہبی جلسے میں نظر آتے ہیں،
مقصود جلسہ تھا کہ تزکیۂ نفس ہوجائے مگر یہاں معاملہ برعکس ہوتا ہے، آج کل کا ماحول تو ہمارے علاقے کا ایسا ہوگیا ہے کہ اگر کوئی نالغ جلسہ سننے گیا تو وہ بالغ ہوکر جلسے سے لوٹتا ہے، اللہ خیر کرے، اس لئے ایسے نام نہاد نعت خوانوں سے ہمیں سماج کو بچانا ہوگا، اور اس قسم کے نعت خوانوں کا مکمل بائیکاٹ کرنا ہوگا،
اب آئیے ذرا ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ گانے کی طرز و انداز میں نعت پڑھنا کیوں ممنوع ہے؟
عندالفقہاء گانوں کے طرز و انداز پر نعت رسول کہ ممنوعیت بربنیاد تشابہ ہے،
اب تشبیہ کے فقہاء نے فقہی اعتبار سے کئی مراتب مرتب فرمائے ہیں،
(1)اضطراری امور میں تشبیہ (2)اختیاری امور میں تشیہ (3)مذہبی امور میں تشبیہ (3)معاشرت و عادی امور میں تشبیہ (4)غیر اقوام کے شعار میں تشبیہ (5)مطلقا اغیار کے اشعار میں تشبیہ (6)ذی بدل اشیاء میں اغیار سے تشبیہ (7)غیر ذی بدل اشیاء میں اغیار سے تشبیہ، وغیرہ وغیرہ
طوالت کو زیر نظر رکھتے ہوئے ہم سے معاشرت وعادی امور میں تشبیہ کے حوالے بات کریں گے،
معاشرتی و عادی امور بھی دو قسموں پر منقسم ہوتے ہیں ایک وہ جو قبیح بالذات ہیں یعنی وہ امور جن کو شریعت نے براہ راست منع کیا ہو
دوسرے وہ امور جو مباح بالذات ہیں یعنی وہ امور جس کو شریعت نے براہ راست تو منع نہیں کیا لیکن دیگر خارجی امور کی وجہ سے وہ ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے جیسے قوالی بر مزامیر، وغیرہ
اب ذرا تشبیہ کی تعریف بھی سنتے چلئے
کسی چیز کا کسی خاص صفت کے اعتبار سے دوسری چیز کے مانند قرار دینا تشبیہ کہلاتا ہے، جیسے علی شیر ہے.
حقیقتاً علی کا حیوان مفترس سے کسی قسم کا کوئی لینا دینا نہیں، مگر علی کی جرأت و بہادری چونکہ حیوان مفترس کے جرأت و بہادری ہی کی طرح ہے اس لئے تشبیہاً علی کو شیر کہا گیا، بعینہ یہی احوال گانوں کے طرز و انداز میں نعت پڑھنے کے ہیں حقیقتاً الفاظ نعت رسول کا گانوں سے کوئی لینا دینا نہیں مگر چونکہ نعت کے اشعار کو گانوں کے ترنم میں ملا دیا گیا، کسی نے گانے کے طرز پر نعت پڑھی ذہن فوراً اس گانے کی طرف منتقل ہوگیا، لہذا دونوں میں تشبیہ واقع ہوئی، اس لئے اس طرح کے امور کو عندالفقہاء ممنوع قرار دیا گیا،