ازقلم: اسانغنی مشتاق رفیقیؔ
وانم باڑی، تمل ناڈو
جو روبرو مجھے عمدہ نگینہ کہتا ہے
وہ پیٹھ پیچھے مجھے اک کمینہ کہتا ہے
مرے پسینےکوپانی بھی وہ نہیں کہتا
بہاؤں خون تو اُس کو پسینہ کہتا ہے
زباں کی لاج ہے، جس کو دبا کے رکھنے میں
وہ اُس کو شان سےپھیلا کے سینہ کہتا ہے
سُنا ہےلاشوں پہ سجتے ہیں تختِ شاہ یہاں
وہ تربتوں کوترقی کا زینہ کہتا ہے
ابھی کُھلا بھی نہیں کوئی بادباں اُس کا
جسے توغرق شدہ اک سفینہ کہتا ہے
بڑا حکیمِ ہےوہ شخص، اس کی قدر کرو
جوآدمی کوخدائی خزینہ کہتا ہے
سمجھ رہے ہیں کچھ احباب بزدلی اس کو
رفیقیؔ جس کو ادب کا قرینہ کہتا ہے