تحریر:: محمد انس قادری رضوی
گھوسی کی سرزمین بڑی مردم خیز واقع ہوئی ہے، اس نے ایسے بےشمار افراد کو جنم دیا جنہوں نے اپنے علمی کارناموں سے دین متین کی بے مثال خدمتیں انجام دیں اور ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
اسی سلسلہ کی ایک سنہری، روشن اور تابناک کڑی شارح بخاری حضرت علامہ مولانا مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ بھی ہیں حضور والا کے حیات کی چند جھلکیاں پیش خدمت ہیں:
ولادت و نسب
آپ کی ولادت ١٣٤٠ھ بمطابق ١٩٢١ء ضلع مؤ کے مشہور و معروف قصبہ گھوسی کے محلہ کریم الدین پور میں ہوئی۔
آپ کا سلسلہ نسب یوں بیان کیا جاتا ہے۔
مفتی شریف الحق امجدی بن عبدالصمد بن ثناءاللہ بن لعل محمد بن مولانا خیرالدین اعظمی۔
مولانا خیرالدین علیہ الرحمہ اپنے عہد میں پایے کے عالم اور صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے، ان کا یہ روحانی فیض آج تک جاری ہے کہ ان کے عہد سے لیکر اس دور میں پانچویں پشت تک ان کی نسل میں جلیل القدر علماء کرام موجود ہیں انہیں میں سے ایک حضور شارح بخاری علیہ الرحمہ ہیں جو ماضی قریب میں ہند و پاک کے مسلمانان اہل سنت کے صف اول کے مقتدا اور پوری دنیاے اہل سنت کے مرجع فتاوی اور مرکز عقیدت رہے۔
سلسلہ تعلیم
محلہ باغیچہ قصبہ گھوسی کے مقامی مکتب میں آپ نے ناظرہ قرآن شریف کی تعلیم حاصل کی، اور صدر الشریعہ علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ کے منجھلے بھائی حکیم احمد علی علیہ الرحمہ سے گلستاں و بوستاں کی تعلیم بڑے ہی شوق، دلچسپی و لگن سے حاصل کی۔ ابتدا ہی سے یہ امنگ اور جذبہ کار فرما تھا کہ جید علماء اور ماہرین علوم و فنون سے اعلی تعلیم حاصل کریں چنانچہ اسی تمنا اور لگن کے زیر اثر آپ نے ١٠، شوال المکرم ١٣٥٣ھ/١٩٣٤ء کو دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور میں داخلہ لیا اور یہیں آپ نے حافظ ملت علیہ الرحمہ کے زیر کرم رہ کر آٹھ سال تک تعلیم حاصل کی۔ اس دوران آپ نے تمام علوم و فنون بڑی محنت عرق ریزی اور جاں سوزی کے ساتھ پڑھا۔
محرم الحرام ١٣٦١ھ/١٩٤٢ء میں سات آٹھ ماہ مدرسہ اسلامیہ عربیہ، اندرکوٹھ میرٹھ کے بھی آپ طالب علم رہے، یہاں آپ نے صدرالعلماء حضرت مولانا سید غلام جیلانی میرٹھی اور خیرالاذکیا حضرت علامہ غلام یزدانی اعظمی نوراللہ مرقدہ سے مختلف کتابوں کا درس لیا۔
شوال المکرم ١٣٦١ھ/١٩٤٢ء میں آپ مدرسہ مظہر اسلام محلہ بہار پور، بریلی شریف پہنچے، جہاں محدث اعظم پاکستان حضرت علامہ سردار احمد صاحب قبلہ کا نور علم تمام تر تابانیوں کے ساتھ اپنی قرنیں بکھیر رہا تھا۔ محدث اعظم پاکستان سے صحاح ستہ حرفًا حرفًا پڑھ کر دورہ حدیث کی تکمیل کی۔ اور ١٥، شعبان ١٣٦٢ھ/١٩٤٣ء کو درس نظامی سے آپ کی فراغت ہوئی۔
صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی، صدرالافاضل مفتی نعیم الدین مرادآبادی، مفتی اعظم ہند مفتی محمد مصطفی رضا قادری نوری اور دیگر ممتاز علماء و مشائخ اہل سنت نے اپنے مقدس ہاتھوں سے دستار فضیلت اور جبہ مبارک سے نوازا۔
درس نظامی کے علاوہ فتاوی نویسی کی تعلیم و تمرین ایک سال سے زائد حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ سے حاصل کی اور حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ کی بارگاہ میں گیارہ سال رہ کر فتاوی نویسی سیکھی، یہاں تک کی ایک مستند مفتی اور معتمد فقیہ کی حیثیت سے آپ کی ذات گرامی بر صغیر پاک و ہند میں مشہور و معروف ہو گئی، اور علمی حلقوں میں "نائب مفتی اعظم ہند” کے لقب سے آپ کو یاد کیا جانے لگا۔
تدریسی خدمات
ماہرین علوم و فنون اور جلیل القدر اساتذہ سے اکتساب علم کرنے کے بعد حضور شارح بخاری علیہ الرحمہ نے تقریباً ٣٥ سال تک نہایت ذمہ داری، جاں سوزی اور کمال مہارت کے ساتھ ہندوستان کے مختلف مدارس میں تدریسی خدمات انجام دیں اور اخیر میں درس و تدریس کا مشغلہ چھوڑ کر جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں شعبہ افتاء کی مسند صدارت پر متمکن ہو کر ٢٤ برس تک رشد و ہدایت کا فریضہ انجام دیتے رہے۔
بیعت و خلافت
١٣٥٩ھ میں دارالعلوم اہل سنت مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم کے ایک جلسہ میں صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ آپ صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کے سابقین اولین مریدوں میں سے ہیں۔
شوال المکرم ١٣٦٧ھ/١٩٤٨ء کو دوسرے سفر حج و زیارت کے موقع پر صدرالشریعہ قدس سرہ نے آپ کو سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ کی خلافت و اجازت دی اور بریلی شریف کے قیام کے زمانے میں حضور مفتی اعظم ہند الشاہ علامہ مصطفی رضا قادری رضوی نوری بریلوی قدس سرہ نے ٧، رمضانالمبارک، ١٣٨١ھ میں "النور والبھای” میں مذکور ٣٩ سلاسل کی تحریری اجازت کے ساتھ سلسلہ عالیہ برکاتیہ رضویہ کی بھی اجازت مرحمت فرمائی، علاوہ ازیں ١٣٨٣ھ میں مفتی اعظم نے "الاجازات المتینہ” میں درج تمام سلاسل کی بھی اجازت عطا فرمائی، اور احسن العلما حضرت سید شاہ مصطفی حیدر علیہ الرحمہ سجادہ نشین خانقاہ قادریہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ نے عرس قاسمی ١٤٠٤ھ کے موقع پر بلا طلب اپنے خاندان کے تمام سلاسل جدیدہ کی اجازت عطا فرمائی اور دستاربندی کی۔
اکابر علماء کی معتمد علیہ شخصیت
ان ہی وہبی اوصاف اور خداداد صلاحیتوں کی بنا پر اکابر علماے اہل سنت نے ہمیشہ آپ پر اعتماد فرمایا، اور متعدد اہم مواقع پر آپ کو مقدم رکھا۔ حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ آپ پر اتنا اعتماد فرماتے کہ رمضان شریف میں صحیح خواں حافظ نہ ملنے کی وجہ سے سورہ تراویح پڑھتے اور عشاء و تراویح کے لئے آپ کو امام بناتے، اور خود آپ کی اقتدا میں نماز ادا فرماتے، حالانکہ دیگر علماء بھی موجود ہوتے۔
وصال پر ملال
٦/صفر المظفر ١٤٢١ھ مطابق ١١، مئی، ٢٠٠٠ء بروز جمعرات آپ نے الجامعة اشرفیہ، مبارک پور، اعظم گڑھ میں نماز فجر اور وظائف و معمولات کی ادائیگی کے بعد دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے پانچ بج کر چالیس منٹ پر اچانک اس دار فانی سے دار جاودانی کی طرف کوچ کیا، اور یہ علم و فن کا رازداں اور استقامت و ثابت قدمی کا پیکر نایاب ہمیشہ کے لیے آغوش زمین میں محو خواب ہو گیا۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
کیا خبر تھی موت کا یہ حادثہ ہو جایےگا۔۔۔
یعنی آغوش زمین میں آسماں سو جایےگا۔۔۔۔