خیال آرائی: فیضان علی فیضان، پاکستان
کس کی آمد ہے کوئی اتنا ہے پیارا کس کا
رات کے وقت کھلا ہے وہ دریچہ کس کا
جھلملاتا ہے تصور اسے کیسے دیکھیں
گھومتا رہتا ہے نظروں میں یہ چہرہ کس کا
کون ہے جس کو میری فکر لگی ہے اتنی
میری حرکت پہ لگا رہتا ہے پہرہ کس کا
کچھ پریشان ہوں چہرہ بھی پسینے میں ہے تر
میری باتوں میں کہاں ذکر بھی آیا کس کا
اجنبی شہر ہے محتاط ہی رہنا ہے ہمیں
دھوکہ دے جائے کوئی کیا ہے بھروسہ کس کا
شور میں صاف سنائی نہیں دیتا ہے مجھے
دل کی وادی میں ابھی نام یہ گونجا کس کا
میری غزلوں سے تھی فیضان جسے دل چسپی
اس کے ہونٹوں پہ ابھی رہتا ہے نغمہ کس کا