تحریر: غلام مصطفیٰ رضوی، مالیگاؤں
۱۹۸۵ء میں حضور احسن العلماء سید مصطفٰی حیدر حسن میاں مارہروی رحمة اللہ تعالی علیہ نے کراچی میں مشہور مترجم و ادیب حضرت شمس بریلوی(م۱۹۹۷ء؛ سابق استاذ جامعہ منظر اسلام بریلی شریف) سے ملاقات کی، اس ملاقات کا مقصد بعض اشعار رضاؔ کی توضیح و تفہیم کے سلسلے میں استفسار تھا۔ حضرت شمس بریلوی نے امام احمد رضا کے کئی ان قصائد پر تشریحی کام کیا تھا جو اصطلاح ہیئت و نجوم، علم فلکیات کے حوالے سے تھے۔ اور کلام رضاؔ کے فنی تجزیہ کے حوالے سے بھی حضرت شمس بریلوی کی خاصی شہرت تھی، ملاقات کے احوال ڈاکٹر مجیداللہ قادری (سکریٹری ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا، کراچی) کی زبانی ملاحظہ کریں جو اس محفل ملاقات کے شاہدتھے، موصوف لکھتے ہیں:
حضرت حسن میاں صاحب علیہ الرحمہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا نعتیہ دیوان ’’حدائق بخشش‘‘ اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے تھے، اور جا بجا صفحات پر نشانیاں بھی رکھی ہوئی تھیں۔ حضرت حسن میاں نے فرمایا: شمس صاحب آپ سے اعلیٰ حضرت کے چند نعتیہ اشعار کی تشریح درکار ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ بر صغیر پاک و ہند میں صرف آپ ہی ان اشعار کی تشریح کر سکیں گے، کہ آپ ہی نے کلام رضاؔ کا ادبی و تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے، میں نے کئی حضرات سے ان اشعار کی تشریح کے سلسلے میں رجوع کیا، مگر مجھے کوئی بھی ان اشعار کے مطالب و مفاہیم سے مطمئن نہ کر سکا۔ حضرت حسن میاں نے سب سے پہلے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا یہ شعر پڑھا اور فرمایا کہ آپ اس کی تشریح فرمائیں:
بلبل و نیل پر و کبک بنو پروانو
مہ و خورشید پہ ہنستے ہیں چراغانِ عرب
حضرت شمس نے بے تامل فرمایا کہ: اعلیٰ حضرت کے اس شعر کا بنیادی خیال اس شعر میں موجود ہے:
کہہ دو یہ کوہ کن سے کہ مرنا نہیں کمال
مر مر کے ہجرِ یار میں جینا کمال ہے
اس شعر میں ایک تلمیح ہے……تلمیح یہ ہے کہ ’’بلبل‘‘ گل پر فریفتہ ہے۔ نیل پر (فاختہ کے برابر جسم والا بہت ہی خوب صورت پرندہ) آفتاب پر عاشق ہے۔ اور ’’کبک‘‘ نیل پر کی طرح بجائے آفتاب کے ماہ تاب پر جان دیتا ہے۔ یہ تینوں عاشقان صادق اپنے محبوب کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ بلبل تو گل بن پر منڈلاتی ہے اور چکر لگاتے لگاتے بے خود ہو کر گل پر اپنے رُخسار رکھ کر بے ہوش ہو جاتی ہے اور بار بار کے اس عمل سے اس کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے……’’نیل پر‘‘ جب آفتاب نصف النہار پر ہوتا ہے تو اس تک پہنچنے کے لیے بے تحاشا پرواز کرتا ہے اور بہ حد تاب و تواں پرواز کرتا ہے اور آخر کار اس پرواز میں اس کا جگر پھٹ جاتا ہے اور فضا سے مردہ زمین پر گرتا ہے۔ ’’کبک‘‘ کا بھی یہی حال ہے کہ ماہ تاب پر فریفتہ ہے، ماہ کامل کو دیکھ کر بے ساختہ چیختا ہے یا اس کی طرف پرواز کرتا ہے اور ’’نیل پر‘‘ کی طرح آخر کار یہ بھی مر کر زمین پر آگرتا ہے۔ کبک، نیل پر سے تقریباً دو گناہ اور سہ گناہ بڑا ہوتا ہے، بعض لوگ کبک کو گھروں میں پالتے ہیں اور اس کے پنجرے کو چاندنی سے اس حد تک بچاتے ہیں کہ اس کے پنجرے پر دو تین بستنی چڑھاتے ہیں، اگر چاندنی کی ایک کرن بھی دیکھ لیتا ہے تو پھر بے تحاشا چیختا ہے۔
اس تلمیح کو سامنے رکھتے ہوئے شعر کے مفہوم پر غور کیجیے کہ حضرت رضاؔ فرماتے ہیں کہ اے پروانو! تم شمع محفل پر اس طرح خاموشی سے جان کو قربان کرتے ہو، جان اگر قربان کرنا ہے تو بلبل، نیل پر اور کبک کی طرح قربان کرو، کہ چراغانِ عرب تو مہ و خورشید سے بھی زیادہ فروزاں ہیں، شمع محفل کا کیا ذکر، اس طرح حضرت شمس کئی منٹ تک اس شعر کی تشریح فرماتے رہے۔
(ملفوظاتِ شمس، ص۴۱تا۴۴،مطبوعہ ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا کراچی۲۰۰۳ء)
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت احسن العلماء کو اشعار رضاؔ کی تفہیم و توضیح سے کس قدر دل چسپی تھی، نیز یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شمس بریلوی کی علمی حیثیت احسن العلماء کی نظر میں کس قدر بلند تھی؛ گویا حضرت شمس بریلوی کی ادبی و علمی بصیرت پر مہر تصدیق لگا دی ہے حضور احسن العلماء نے۔