تحریر: مشتاق نوری
میرا ایک ۱۳ سالا بھتیجا ہے جسے حافظ بننے کا بڑا شوق تھا میں اس کے جذبے و لگن کو دیکھ کر اسے قاری صاحب کہنے لگا تھا۔دینی تعلیم کی طرف اس کے جھکاؤ کو دیکھتے ہوئے اپنے ہی علاقے کے ایک درگاہی مدرسے میں داخلہ کرا دیا گیا۔مگر مدرسین کی بے جا سختی و جلادانہ رویے کی وجہ سے مدرسہ چھوڑ کر بھاگ آیا۔اب لاکھ سمجھانے بجھانے کے باوجود وہ مدرسہ جانے کو تیار نہیں تھا۔تھک ہار کے اسے اسکول بھیجنے کا سوچا۔میرے بھیا مالی اعتبار سے مضبوط تھے اس لیے آر ایس ایس آپریٹیڈ ایک مہنگے اسکول میں اس کا داخلہ کرا دیا گیا اور ہاسٹل میں رہ کر تین سال تک پڑھائی کرتا رہا۔
تین سال کے بعد اس لڑکے سے جب میں ملا تو حیرت انگیز طور پر اس کے behavior سے دھچکا لگا کہ جو لڑکا ہر وقت مدرسہ، قرآن، نماز کی بات کرتا تھا اب اس کے منہ سے بات بات میں صرف ہندوانہ جملے اور شرکیہ بھجن نکل رہے ہیں۔پہلے بنا پانی کے استنجا کو نہیں جاتا تھا اب تو کھڑے کھڑے پیشاب کرنے کو اسکول کا فیشن بتا رہا ہے۔اس رویے پر میں نے سخت ڈانٹ پلائی تو کچھ بدلاؤ بھی آیا۔
ایک صبح تڑکے ہی میں نیند سے بیدار ہوا تو کہیں سے بھجن بجنے کی آواز آرہی تھی۔جس میں شکشا کی دیوی سرسوتی سے آرتی وندنا کی گئی تھی۔اس سے مدد اور سکشا و شانتی کی ونتی کی جارہی تھی۔جب اس کے بستر کے قریب گیا تو دیکھ رہا ہوں کہ اسی کے سادہ موبائل فون میں بھجن بج رہا ہے۔مین نے پوچھا صبح صبح اللہ و رسول کا نام لینے کے بجاۓ یہ کیا بجا رہے ہو؟ کہنے لگا ہمارے اسکول کا پرارتھنا گیت ہے۔یہ سارے بچوں کے موبائل میں ملے گا۔ سب کو یاد کرنا ہوتا ہے۔
اب آپ کو اور حیرت ہوگی کہ میرا بھتیجا جس شہر کے اسکول میں پڑھتا تھا وہاں کی ۸۰ فیصد آبادی مسلم ہے۔تو واجبی طور پر اس اسکول میں پڑھنے والے بچوں کی اکثریت بھی مسلم رہی ہوگی۔اب آپ سوچیں کہ اس علاقے کے مسلم بچوں کے عقائد اور معمولات کس قدر بھیانک روپ لے چکے ہوں گے جہاں ہندوستان بھر کی بڑی بڑی خانقاہوں کے بڑے بڑے پیروں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔یہ وہ علاقہ ہے جہاں پچھلے تین مہینے سے لگ بھگ ایک درجن خانقاہوں کے دو درجن جبہ پوش بابائیں و پیران مغاں کسی نہ کسی بزرگ کا فیضان بانٹنے کے نام پر پیری مریدی کی فصل کاٹ رہے ہیں۔جی ہاں! میں سیمانچل کے کشن گنج کے اسمبلی حلقہ ٹھاکر گنج کی بات کر رہا ہوں۔وہی ٹھاکر گنج جہاں اسکول کے نام پر یا تو آر ایس ایس کے ادارے ششو مندر، بال مندر ملیں گے یا پھر عیسائی مشنری کے مشن اسکولس۔
آج تک ایک چھوٹا سا بھی اسکول ہم وجود میں نہیں لاسکے ہیں۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پیران کرام و علماۓ اسلام جب بھی پروچن دیں گے تو صرف یہی کہ مدرسہ کھولو،فلاں مدرسے کو چندہ بھیجو۔فلاں بابا کا مزار بنواؤ۔فلاں خانقاہ کی تعمیر میں حصہ لو، لے دے کے بس یہی۔آج تک کسی نے اسکول کالج بنانے کی تلقین نہیں کی۔لگتا ہے کوئی اس کی ضرورت و اہمیت سمجھتا ہی نہیں۔
"عن أبی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم: اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَمَلُہٗ اِلَّامِنْ ثَلٰثٍ ، صَدَقَۃٌ جَارِیَّۃٌ ، أوْ عِلْمٌ یُنْتَفَعُ
بِہٖ ، أوْ وَلَدٌ صَالِحٌ یَدْعُوْ لَہٗ”
ہمارے علما و صوفیا اکثر محافل میں خاص کر ایصال ثواب کی محفلوں میں اس حدیث کو کوٹ کرتے ہیں۔اس کا ترجمہ تو کرتے ہیں مگر اس کی تشریح و توضیح کے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔حضور کی حدیث کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ فرمان نبوت صرف مخصوص زمانے لیے تھا بلکہ آپ کی حدیث کے انطباق کا مسئلہ جب جب درپیش ہوگا اس کے بین السطور میں زمانے کے بدلاؤ اور اس کے تقاضوں کا لحاظ بہر حال رہے گا۔اور ہم آج بھی وہی مفہوم سمجھا رہے ہیں جو آؤٹ آف ٹائم ہوچکا۔
صدقۂ جاریہ میں مقررین و خطبا ببانگ دہل بیان کرتے ہیں کہ کنواں کھودوا دینا،مسافروں کے لیے سراۓ بنا دینا۔مدرسہ بنوا دینا۔مسجد بنانا یا اس میں حصہ لینا۔وغیرہ ۔جب کہ آج کے ڈیٹ میں کنواں کھودوانے کی بات عجیب سی لگتی ہے۔مسافروں کے لیے سراۓ بنانے کا کام آج سرکاریں حکومتیں کرتی ہیں یہ کام آپ کے لیے ہے ہی نہیں۔اور نہ ہی آج کے ڈیٹ میں مسافر خانے کا تصور ویسا ہوپاۓ گا جیسا ۱۴ سو سال پہلے کا تھا۔زمانہ بالکل بدل گیا ہے۔
رہی مسجد و مدرسے بنانے یا تعمیر میں حصہ لینے کی بات۔تو آج کے حالات کے مد نظر کیا یہ زیب دیتا ہے کہ اپنے اسکول نہ ہونے کی وجہ سے قوم و ملت کے بچے شرک و ارتداد اور لادینیت کی طرف مائل ہوں اور آپ صرف مسجد اور مدرسے کی بات کرتے رہیں؟
اور یہ بھی کہ مذکورہ حدیث میں جس علم نافع کی بات کی گئی ہے اسے صرف دین کی تعلیم تک محدود رکھنا، عصریات کو خارج کر دینا حدیث کے مفہوم میں تحریف کرنے جیسا جرم سامنے آتا ہے۔اور ولد صالح کے جملہ خصائص و اوصاف صرف مولوی صاحب پر ہی صادق آتے ہوں یہ بھی بڑا عجیب لگتا ہے۔آپ مذکورہ بالا حدیث کی اپڈیٹ تشریح و توضیح کریں یہ وقت کی مانگ ہے۔
ایک بات بڑی چالاکی سے خطبا جلسوں میں اور پیر حضرات اپنی نجی محفلوں میں بیان کرتے ہیں کہ مسجد اللہ کا گھر ہے اور مدرسہ رسول اللہ کا۔اس طرح کی بات کر کر کے ہم نے پوری قوم کو نا صرف گمراہ کیا ہے بلکہ ان کے دین و دنیا کے ساتھ کھلواڑ بھی کیا ہے۔میں کہتا ہوں کہ بھارت
جیسے ملک میں اب اور مدارس کی کوئی ضرورت نہیں۔اب قوم کے غیور و جسور افراد کو چاہیے کہ صدقۂ جاریہ کے مفہوم میں اسکول، کالج اور ہاسپیٹل و دیگر کو بھی شامل کر لیں۔خدا کے لیے انہی چیزوں پر زور دیں۔
آپ میری یہ بات ذہن نشیں کر لیں کہ اگر دین کا کام صرف روایتی مولویوں، پونجی پتی پیروں، نذرانہ خور بدعتی باباؤں پر چھوڑ دیا جاۓ تو آپ کی اگلی نسلوں کو دین سے بس اتنا ہی مطلب رہے گا جتنا بالی ووڈ کے خان برادران کو ہے۔مذہبی لباس کے مذکورہ تینوں درجے کے فرشتہ لباس لوگ فہم دین و تقاضاۓ دین سے بالکل ہی بے بہرہ ہیں۔اگر کچھ ہے بھی تو لائق اعتنا نہیں سمجھتے۔سب کو اپنے پیٹ کی پڑی ہے۔
ستم تو یہ کہ اس مسلم سماج کا بھی عجیب معاملہ ہے مولویوں کی کوئی نہیں سنتا۔پیروں کی سننا چاہتا ہے مگر پیر سناتے نہیں۔اور سناۓ بھی کیوں جب مفت میں وی آئی پی ٹریٹمنٹ مل رہا ہے۔ لوگ انہیں ماورائی ہستی سمجھ کر زمین پر خدائی ایجنٹ سمجھتے ہیں۔ اور باباؤں کو تعویذ گنڈے سے فرصت کہاں۔
ایسے میں اگر ہمارے آپ کے بچے کے سادہ اذہان میں شرک و ارتداد کا سبق نقش کر دیا جاۓ یا اسلام سے بغاوت کا زہر پروسا جاۓ تو آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اس کے کتنے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے۔اور اس کا ذمہ دار صرف آپ ہی نہیں بلکہ آپ کے سماج سے جڑے وہ سارے لوگ ہوں گے جن کی آپ کے سماج پر گرفت مضبوط ہے۔جو آپ کو اپنی تقدیس و تبرک کے جھانسے میں رکھ کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں اور چلتے بنتے ہیں۔