سماجی مضامین گوشہ خواتین

جہیز: ایک سماجی لعنت اور اس کے خاتمے کے لیے اقدامات

جہیز کا مسئلہ ہمارے معاشرے میں ایک گہری جڑ پکڑ چکا ہے، جو نہ صرف سماجی برائی ہے بلکہ معاشی، اخلاقی اور مذہبی طور پر بھی نقصاندہ ہے۔ اس لعنت کے خاتمے کے لیے ہم سب کو انفرادی، سماجی اور اجتماعی سطح پر اقدامات کرنے ہوں گے۔

جہیز کے مضر اثرات ملاحظہ فرمائیں؛

1.غربت اور مالی دباؤ:
جہیز کا سب سے بڑا نقصان غریب اور متوسط طبقے پر ہوتا ہے۔ والدین اپنی بیٹی کی شادی کے لیے قرض لیتے ہیں، زمین یا جائیداد بیچ دیتے ہیں، یا اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی صرف کر دیتے ہیں۔ یہ مالی دباؤ اکثر ان کی زندگی بھر کے لیے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔

2.تاخیر سے شادیاں:
جہیز کے مطالبات کی وجہ سے کئی لڑکیوں کی شادیاں تاخیر کا شکار ہو جاتی ہیں۔ والدین جہیز کا انتظام کرنے کے لیے وقت نکالتے ہیں، اور لڑکیوں کی عمر بڑھنے کے ساتھ ان کی شادی کے امکانات کم ہو جاتے ہیں، جو مزید سماجی دباؤ کا باعث بنتا ہے۔

3.ازدواجی زندگی کے مسائل:
کئی مرتبہ شوہر یا اس کے اہل خانہ شادی کے بعد بھی جہیز کی کمی پر اعتراض کرتے ہیں، جس کی وجہ سے لڑکیوں کو ذہنی و جسمانی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ مسائل اکثر ازدواجی تنازعات، طلاق، یا خواتین پر تشدد کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔

4.لڑکیوں کی پیدائش کو ناپسند کرنا:
جہیز کی وجہ سے کئی خاندان لڑکیوں کی پیدائش کو ناپسند کرتے ہیں، کہ وہ انہیں مالی بوجھ سمجھتے ہیں۔ یہ سوچ صنفی امتیاز کو فروغ دیتی ہے اور کئی جگہوں پر لڑکیوں کی پیدائش پر پابندیاں یا ان کا قتل جیسی سنگین برائیاں پیدا کرتی ہے۔

5.اخلاقی برائیاں:
جہیز کی رسم سماجی بدعنوانیوں کو جنم دیتی ہے۔ لوگ شادی کے لیے دولت کمانے کے غیر قانونی یا غیر اخلاقی ذرائع اختیار کرتے ہیں۔ اسی طرح، خاندانوں کے درمیان حسد اور مقابلے کی فضاء پیدا ہوتی ہے۔

6.خودکشی کے واقعات:
کئی ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جہاں جہیز کے دباؤ یا شادی کے بعد سسرال میں جہیز کی کمی کی وجہ سے لڑکیاں خودکشی پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ یہ رسم ان کی زندگیوں کو ناقابلِ برداشت بنا دیتی ہے۔

7.والدین کے حقوق کی پامالی:
جہیز کے دباؤ کی وجہ سے والدین اپنی زندگی بھر کی کمائی صرف اپنی بیٹیوں کی شادی پر خرچ کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے بڑھاپے میں مالی تحفظ ختم ہو جاتا ہے۔

8.دین و ایمان کا زوال:
آج ہم دیکھتے ہیں کہ جب والدین جہیز کی توقعات پوری کرنے میں ناکام رہتے ہیں، تو اکثر لڑکیوں کو ایسی جگہوں پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے جو ان کے مذہب و عقیدہ سے متصادم ہوتی ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ آر ایس ایس جیسے گروہ انہی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، اور اُن کی جانب سے شروع کی گئی "بیٹی بچاؤ، مسلم بہو لاؤ” تحریک کو مزید تقویت دے رہی ہے۔ کئی واقعات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ مسلم لڑکیاں، جہیز کے معاشی بوجھ سے تنگ آکر ایسے چنگل میں پھنس جاتی ہیں جہاں ان کے دین و ایمان کو تباہ کیا جاتا ہے۔

جہیز کی بیخ کنی کے لیے چند عملی تجاویز پیش خدمت ہیں:-

1.جلسوں اور مساجد میں جہیز کا عنوان رکھیں:
ائمہ مساجد و خطباء حضرات اپنے خطبات اور بیانات کے ذریعے جہیز کے خلاف مضبوط آواز اٹھائیں۔ اس کے نقصانات سے آگاہ کریں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق سادگی اور کفایت شعاری پر زور دیں۔

2.مشائخِ کرام مریدوں سے عہد لیں:
جب ایک مرید اپنے شیخ سے روحانی تربیت کے لیے وابستہ ہوتا ہے، تو اس کا دل و دماغ اصلاح کے لیے تیار ہوتا ہے۔ ایسے میں مشائخ کرام مریدین سے عہد لیں کہ وہ نہ جہیز لیں گے، نہ دیں گے، اور نہ کسی ایسی شادی میں شرکت کریں گے جس میں جہیز کا لین دین ہو۔ ایسے موقع پر جہیز کے خلاف شعور اجاگر کرنا اور اس کے خاتمے کے لیے عہد لینا نہایت مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔

3.مقامی کمیٹیوں کا قیام:
گاؤں، شہروں اور محلوں میں ایسی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو شادیوں میں جہیز نہ دینے کی مہمات چلائیں۔ ان کمیٹیوں کے ذریعے سادہ شادیوں کے لیے لوگوں کی مدد کی جائے۔ جو لوگ سادگی سے شادیاں کرتے ہیں، ان کی سماجی سطح پر حوصلہ افزائی کی جائیں۔

4.جہیز لینے والوں کا سماجی بائیکاٹ:
ان افراد اور خاندانوں کا سماجی بائیکاٹ کریں جو جہیز لینے یا مانگنے کے قائل ہیں۔ ایسے خاندانوں کے ساتھ رشتہ داری قائم کرنے سے انکار کریں جو اس رسم کو فروغ دیتے ہیں۔

5.قانونی سزا:
معاشرے میں یہ بات عام کی جائے کہ اگر کسی شخص نے جہیز کا مطالبہ کیا تو اس کو قانونی سزا ہوگی۔
جہیز انسداد قانون (Dowry Prohibition Act, 1961) یہ قانون بھارت میں جہیز کو مکمل طور پر غیر قانونی قرار دیتا ہے اور کم از کم 5 سال کی قید ہے۔ _ خواتین کے تحفظ کا قانون (Protection of Women from Domestic Violence Act, 2005) یہ قانون جہیز کے لیے تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

6.سوشل میڈیا کا استعمال:
یوٹیوب فیس بک واٹس ایپ وغیرہ کے ذریعے جہیز کے خلاف آگاہی مہم چلائے جائیں۔ اس کے نقصانات سے لوگوں کو باور کرایا جائے۔”جہیز نہ دینا اور نہ لینا“ کے اصول کو فروغ دی جائے۔

یہ تمام اقدامات معاشرے میں جہیز کی لعنت کے خاتمے میں معاون ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ ان پر مستقل بنیادوں پر عمل کیا جائے۔

ازقلم:
محمد توصیف رضا قادری علیمی
مؤسس اعلیٰ حضرت مشن کٹیہار 
شائع کردہ: 20، نومبر، 2024ء

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے