از: فارح مظفرپوری
زمانہ ہم سے بڑا اختلاف کرنے لگے
حقیقتوں کا اگر انکشاف کرنے لگے
تباہی آئے گی اک روز اس کے جیون میں
عقیدتوں میں جو میرے شگاف کرنے لگے
میں اسکی ذات کوکچھ بھی نہیں سمجھتا ہوں
جو صوفیوں کے مشن کے خلاف کرنے لگے
انھی کے ٹکڑوں کو کھا کر پلے بڑھے نادان
نسب سے ان کے ہی اب انحراف کرنے لگے ؟
بسا کے شہر محبت کی دل کشی فارح
دلوں سے گرد و غبار اپنے صاف کرنے لگے