خیال آرائی: فیضان علی فیضان، پاک
وہ دیتے ہیں سوالوں کا جواب آہستہ آہستہ
بنا کے دوں تو پیتے ہیں شراب آہستہ آہستہ
نہیں کہتے کبھی کھل کے تمنا کیا چھپی دل میں
سناتے ہیں مجھے وہ جھوٹے خواب آہستہ آہستہ
نہیں رہتا ہے قابو دل پہ اپنے جب وہ آتے ہیں
ہٹاتے ہیں وہ جب رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
گھرا خاروں میں ہے یہ گل نزاکت پہ نہ جانا تم
نہ کرنا جلدی تم توڑو گلاب آہستہ آہستہ
محبت جو بھی کرتے ہیں یہی انداز رکھتے ہیں
دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آہستہ آہستہ
بہت ہی خوبصورت ہیں نہیں ثانی کوئی ان کا
رکھیں بند کھولیں دل کا باب آہستہ آہستہ
بہت ہی ناز ہے ان کو کہ دیوانے ہزاروں ہیں
فیضان کرتے ہیں خون دل جناب آہستہ آہستہ