تحریر: محمد دلشاد قاسمی
قرآن مجید میں قاعدہ کلیہ بیان کیا گیا ہے
وما کان ربک لیہلک القری بظلم واہلہا مصلحون
اللہ تعالی کوئی ظالم نہیں ہے کہ کسی قوم کو خامخواہ برباد کر دے دراں حالیکہ وہ نیکوکار ہوں ہو ہلاک اور برباد کر دینے سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ بستیوں کے طبقے الٹ دیئے جائیں اور آبادیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے بلکہ اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ قوموں کا شیرازہ بکھیر دیا جائے ان کی اجتماعی قوت توڑ دی جائے ان کو محکوم اور مغلوب کر دیا جائے ان کو ذلیل و خوار کر دیا جائے اس قاعدے کی بنا پر ہلاکت اور بربادی کی تمام قسمیں کسی بھی قوم پر نازل نہیں ہوتی جب تک وہ خیر اور صلاح کے راستے کو چھوڑ کر شر اور فساد سرکشی اور نافرمانی کے راستوں پر نہ چلنے لگے اور اس طرح سے وہ خود اپنے اوپر ظلم نہ کرے اللہ تعالی نے جہاں کہیں کسی قوم کو عذاب کے اندر مبتلا کرنے کا ذکر فرمایا ہے وہاں پر اس کا جرم بھی ساتھ ساتھ بیان کردیا ہے تاکہ لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہوجائے کہ یہ ان کی اپنے ہی اعمال کی وجہ سے تھا ۔
فکلا اخذنا بذنبہ وماکان اللہ ليظلمهم ولكن كانوا انفسہم یظلمون ۔
دوسري بات یہ ہے کہ ہلاکت اور بربادی کا سبب صرف انفرادی فساد نہیں ہوتا بلکہ اجتماعی ہوتا ہے یعنی اعتقاد اور عمل کی خرابی اگر متفرق طور پر افراد میں پائی جاتی ہوں لیکن مجموعی طور پر قوم کا دینی اور اخلاقی معیار بلند ہو تو افرادکی بربای اس کے اثر سے دبی رہتی ہیں مگر جب اجتماعی طور پر بگاڑ اور فساد کو پھیلنے اور پھولنے کا موقع ملنے لگے تو اس وقت اللہ کی نظرعنائت ایسی قوم سے پھر جاتی ہے اور وہ قوم عزت کے مقام سے ذلت کی طرف گرنے لگتی ہے یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ اللہ کا عذاب اور غضب اس پر بھڑک اٹھتا ہے اور اس کو بالکل تباہ و برباد کر دیا جاتا ہے قرآن کریم میں اس کی بکثرت مثالیں بیان کی گئی ہے۔
وكم اهلكنا من القرون من بعد نوح وكفى بربك بذنوب عباده خبيرا بصيرا
واتقوا فتنه لا تصيبن الذين ظلموا منكم خاصة
قرآن کریم کی ان صاف صاف باتوں کو دیکھنے اور سمجھنے کے بعد اگر ہم اپنی اصلاح کی فکر نہ کریں، بری اور بد قیادت کرنے والوں کی رہنمائی سے گریز نہ کریں ۔اور اپنے اندر کوئی انقلابی تحریک پیدا نہ کریں، سنے اور خاموش رہے، دیکھیں اور چپ رہے، تو پھر یہ بہت ہی سنگین بات ہوگی ۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں