سکونِ جان و دل ارماں امینِ دین و ملت ہیں
مدوا غم کا در درماں امینِ دین و ملت ہیں
ہو علمِ ظاہری یا معنوی ہر ایک میں بیشک
مہارت رکھتے وہ یکساں امینِ دین و ملت ہیں
رسولِ پاک کی سیرت کا مظہر ذات ہے جن کی
وہ پاکیزہ صفت انساں امینِ دین و ملت ہیں
تصلب، استقامت دین پر ان کی رہی دائم
ہاں! ایسے صاحبِ ایماں امینِ دین و ملت ہیں
پڑھا کافر نے بھی کلمہ ہےجن کےدستِ اقدس پر
صداقت کا حسیں داماں امینِ دین و ملت ہیں
مخالف دشمنانِ دیں سے جو بالکل نہ گھبرائے
وہ مرد حق خدا ترساں امینِ دین و ملت ہیں
نہ جانے کتنے بھٹکوں کو وہ راہِ راست پر لائے
گو راہِ حق کے اک ساماں امینِ دین و ملت ہیں
تھی جن کی ذات تقویٰ اورطہارت کاحسیں پیکر
وہ خاصانِ حق و یزداں امینِ دین و ملت ہیں
خدا کے دین کی ترویج میں خدمات میں اپنی
کئے کل زندگی قرباں امینِ دین و ملت ہیں
ہر اک بابِ حیات ان کا منور ہے نمایاں ہے
سراپا روشن و تاباں امینِ دین و ملت ہیں
کہا ہے مفتیِ اعظم نے ‘ہیں زندہ ولی، جن کو
غریقِ وادیِ عرفاں امینِ دین و ملت ہیں
نہیں وہ طالبِ جنت، ہے طالب خلد خود ان کی
وہ مطلوب جناں مہماں امینِ دین و ملت ہیں
دیوانے اشک ان کی یاد میں اب بھی بہاتے ہیں
ہیں کہتے جانِ جاں جاناں امینِ دین و ملت ہیں
امیرِ ناتواں جو چاہ در سے مانگ لے ان کے
بلا شک فیض کے ساماں امینِ دین و ملت ہیں
رشحات قلم : محمد امیر حسن امجدی رضوی