افسانہ نگار: شیخ اعظمی
ہماری شادی کو تین مہینے ہوچکے تھے، زندگی بڑی خاموشی کے ساتھ گزر رہی تھی، ہم دونوں ایک گھر بلکہ ایک کمرے میں ایک ساتھ رہتے ہوئے بھی ایک ایک دوسرے کے لیے اجنبی تھے ، دونوں میں کسی قسم کا کوئی تعلق نہ تھا سوائے اس لفظی رشتے کے جو چند لوگوں کی موجودگی میں قرار پایا تھا اور وہ بھی صرف ایک کاغذ پر دستخط کے سوا کوئی حیثیت نہ رکھتا تھا ، گھر والوں کے سامنے ہم بظاہر میاں بیوی ہی تھے کسی کو ہماری اجنبیت کا بالکل احساس نہ تھا یوں سمجھ لیجئے کہ دونوں کے درمیان ایک خاموش عہد تھا جسے دونوں ہی نا جانے کیوں نبھائے جارہے تھے، میں نے اب بیڈ روم میں سونا چھوڑ دیا تھا ، میرا مطالعے کے لیے ایک کمرہ مخصوص تھا اس میں میرے سوا کوئی نہیں جاتا تھا میں دیر رات تک اسی کمرے میں مطالعہ کرتا اور نیند آنے پر وہیں سوجاتا ، اسی دوران کا قصہ ہے کہ میں مدرسے میں پڑھا رہا تھا جو گھر سے تقریباً ٢/ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع تھا خلاف معمول دورانِ درس والدہ کا فون آیا مجھے اچنبھا سا ہوا فون رسیو کیا فون اٹھاتے ہی والدہ نے کہا فوراً گھر آجاؤ ندا کا زینے سے پیر پھسل گیا ہے حالت تشویش ناک ہے میں فوراً فون کاٹتے ہی بائک نکال کر گھر کی طرف روانہ ہوگیا
گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ در و دیوار مہر بلب ہیں فضا میں خاموشی چھائی ہوئی ہے بیٹھک میں والدہ اور ہمشیرہ ندا کو ہلدی کا دودھ پلا رہے ہیں ندا کو اٹھنے بیٹھنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا دائیں پیر میں تو ہلنے کی بھی سکت نہیں تھی والدہ نے کہا: ڈاکٹر کے پاس لیکر چلتے ہیں جلدی سے گاڑی نکال کر لاؤ حکم سنتے ہی پارکنگ کی جانب چلا گیا
چند لمحوں بعد ہم کلینک میں موجود تھے ڈاکٹرز ندا کا معاینہ کر رہے تھے میں بے چینی کے ساتھ کمرے باہر ٹہلتے ہوئے ڈاکٹر کے نکلنے کا انتظار کر رہا تھا تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا ڈاکٹر ریحان باہر نکلے اور میں ندا کی طبیعت کے متعلق پوچھنے لگا
” ڈاکٹر صاحب ! اب میری بیوی کی کیسی طبیعت ہے ؟”
ڈاکٹر : زینے سے پیر پھسلنے کی وجہ سے پاؤں میں ہلکا سا فیکچر ہے اور باقی کچھ جگہوں پر ہلکی پھلکی چوٹ ہے پٹی کر دی ہے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ان شاءاللہ ایک ڈیڑھ مہینے میں ٹھیک ہوکر چل نکلیں گی لیکن اس پہلے آپ کو ان کا خاص خیال رکھنا ہوگا اس کے بعد ہم نے بل ادا کیا اور گھر آ گئے _
ندا کی بیماری کے دوران بحیثیتِ شوہر اس کی اکثر ذمہداری مجھے ہی سنبھالنی پڑی میں ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق ندا کو صبح شام سہارا دے کر چلنے کی مشق کراتا یہ وقت میرے لیے بہت ہی صبر آزما ہوتا ، ایک طرف تو اس خاموش عہد کے باعث کمال احتیاط کا احساس اور دوسری طرف نازک اندامی کی کشش اس کو اپنی گرفت میں لینے پر مجبور کرتی ، کبھی کبھی ہوا کی شرارت سے دوپٹہ سرک کر کاندھوں پر گر جاتا اور اس کی معطر ریشمی زلفیں جھومتے ہوئے میرے چہرے کے ساتھ چھیڑ خانی کرنے لگتیں ، پھر کبھی تو اسے زلفوں کی شرارت کا احساس ہوجاتا اور وہ خود ہی بالوں کو سمیٹ کر دوپٹہ ٹھیک کر لیتی ؛ لیکن کبھی یوں بھی ہوتا کہ وہ اس حادثے کے دوران (میرے لیے زلفوں کی یہ شرارت کسی حادثے سے کم نہ تھی ) نہ جانے کن خیالوں میں گم ہوجاتی اور اس کی گستاخ زلفیں اپنا کھیل بر قرار رکھتے ہوئے میری جان نکالنے میں مصروف رہتیں پھر مجبوراً میں خود ہی زلفوں کو ہٹا کر اسے آواز دے کر ہوش میں لاتا میری آواز سن کر وہ ٹھٹھک کر رہ جاتی جس کی وجہ سے وہ بے ادب دوپٹہ کاندھے سے بھی سرکنے کی کوشش کرتا جسے وہ فوراً ہی سنبھال کر اس کی کوشش کو ناکام بنا دیتی _
ایک مرتبہ تو یوں ہوا کہ ہم دونوں صحن میں ٹہل رہے تھے، چلنے پھرنے کی مشق جاری تھی ، وہ میرا معمولی سہارا لیے ہوئے تھی میں نے از راہ خود اعتمادی اس سے کہا کہ آپ اب ایک مرتبہ اپنوں پیروں پر بلا سہارا چلنے کی کوشش کیجیے ، یہ سن کر اس نے ڈرتے اور ہچکچاتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو میرے ہاتھوں کی مضبوط گرفت سے جو اب ڈھیلی پڑ چکی تھی آزاد کیا اور آہستہ آہستہ چلنے لگی ابھی چند قدم ہی چل پائی تھی کہ یکایک اس کے قدم ڈگمگائے اور چیختے ہوئے گری اس کی چیخ سن کر تو ناجانے کیوں میری جان سی نکل گئی ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑ گئے میں نے مستعدی سے آگے بڑھ کر اس کو سنبھالا اور گرنے سے بچالیا اگلے ہی لمحے وہ میرے بازؤوں کے حصار میں تھی اس کی سہمی ہوئی نگاہیں میرے چہرے کا طواف کر رہی تھیں ناگہانی میں میری نظریں بھی اس کی آنکھوں کی سیاہ پتلیوں میں اٹک کر رہ گئیں اور چند لمحے یونہی گزر گئے پھر اچانک مجھے کچھ خیال آیا تو میں نے خود کو سنبھالا اور ندا کو لے کر بیڈ روم کی طرف روانہ ہوگیا _
(جاری)