تحریر : عبدالرشید امجدی ارشدی
حج کا لغوی معنی قصد اور ارادہ کرنا ہے _ شرعی اصطلاح میں مخصوص ایام میں مخصوص طریقہ سے مخصوص اعمال انجام دینے کو حج کہتے ہیں _ حج اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک اہم رکن اور فرض عین ہے _ جو ہر صاحبِ حیثیت عاقل بالغ مستطیع مسلمان مرد و عورت پر صرف زندگی میں ایک بار فرض ہے ایک بار حج کی ادائیگی کے بعد دوبارہ حج کرنا نفل کا درجہ رکھتا ہے _ سفر حج یقیناً دنیا کے تمام اسفار میں سب سے مبارک و مقدس اور متبرک سفر ہے جس کی ہر مسلمان مرد و عورت آرزو و تمنا رکھتا ہے مگر حج نصیب والوں کو ہی نصیب ہوتا ہے حج بلا شبہ کثیر المقاصد و کثیر الفوائد عبادت ہے جس میں بے شمار دینی و دنیاوی فوائد ہیں _ حج نماز دعا قربانی طواف وغیرہ عبادتوں کا مجموعہ ہے جو صرف اللہ ہی کے لئے مخصوص ہیں نماز روزہ زکوٰۃ اور دیگر اعمال صالحہ کی طرح احادیث مبارکہ میں حج کی بہت ہی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے اللہ کی رضاء کے لیے حج کیا اور اس دوران کوی بیہودہ بات یا گناہ نہ کیا وہ حج کر کے اس دن کی طرح لوٹے گا جس طرح اس کی ماں نے اسے جنا تھا (صحیح بخاری و مسلم کتاب الحج)
گناہ سے صرف صغیرہ گناہ مراد ہیں ورنہ کبیرہ بڑے گناہ بغیر توبہ اور ادائیگی حقوق کے معاف نہیں ہوتے _
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا گیا کہ کون سا عمل سب سے اچھا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ و رسول پر ایمان لانا کہا گیا اس کے بعد ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا کہا گیا اس کے بعد ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا حج مبرور
(صحیح بخاری و صحیح مسلم کتاب الایمان )
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہم جہاد کو سب سے افضل عمل سمجھتے ہیں کیا ہم جہاد نہ کریں ؟ نبئ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے فرمایا تمہارے لئے افضل جہاد حج مبرور ہے (صحیح بخاری کتاب الحج) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نبئ کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا غازی فی سبیل اللہ حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں _ اللہ تعالیٰ نے ان کو بلایا اور انہوں نے حکم کی تعمیل کی پھر انہوں نے اللہ تعالٰی سے مانگا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فرمایا
(رواہ ابن ماجہ کتاب الحج)
مذکورہ بالا حدیث سے حج کی فضیلت واضح ہوتی ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ آج مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جن پر حج فرض ہوچکا ہے جو مالی استطاعت رکھنے کے باوجود اس فریضہ کی ادائیگی سے غافل ہیں بعض کا یہ خیال ہوتا ہے کہ ہمارے والدین موجود ہیں پہلے وہ حج کر لیں پھر ہم کرینگے تو بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حج ہم پر تو فرض ہو چکا ہے مگر ابھی ہماری بیوی پر فرض نہیں ہوا ہے جب فرض ہوگا تو ہم ایک ساتھ حج کر لیں گے اسی طرح بعض لوگ اپنی لڑکیوں کی شادی بچوں کی اعلی تعلیم گھر کی تعمیر وغیرہ بہت سارے حیلے بہانے بنا کر حج کی ادائیگی سے غافل ہوتے ہیں حالانکہ احادیث میں استطاعت رکھنے کے باوجود نہ کرنے کی سخت مذمت بیان کی گئی
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ھے کہ:
جس شخص کے پاس اتنا خرچ ھو اور سواری کا انتظام ھو کہ بیت اللہ شریف جاسکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں کہ وہ یہودی ھوکر مرجائے یانصرانی ھوکر، اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد کی تائید میں یہ آیت پڑھی:
"وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًاط وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللہ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ”
(آل عمران:۹۷)
اور اللہ تعالیٰ کے (خوش کرنے کے) واسطے لوگوں کے ذمہ اس مکان (بیت اللہ) کا حج (فرض) ھے اس شخص کے ذمہ ھے جو وہاں جانے کی سبیل رکھتا ھو اور جو منکر ھو تو (اللہ جل شانہ کا کیا نقصان ھے) اللہ تعالیٰ تمام جہاں سے غنی ھے (اس کو کیا پروا)۔
(ترمذی، باب ماجاء فی التغلیظ فی ترک الحج، حدیث نمبر:۷۴۰)
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس شخص کے لیے کوئی واقعی مجبوری حج سے روکنے والی نہ ھو، ظالم بادشاہ کی طرف سے روک نہ ھو یا ایسا شدید مرض نہ ھو جو حج سے روک دے؛ پھر وہ بغیر حج کئے مرجائے تو اس کو اختیار ھے کہ چاھے یہودی ھوکر مرے یانصرانی ھوکر۔
(دارمی، باب من مات ولم یحج، حدیث نمبر:۱۸۳۹۔ جمع الجوامع اوالجامع الکبیر للسیوطی، حدیث نمبر:۶۶۱۱)