تحریر : سراج احمد آرزو حبیبی
قربانی عربی زبان کے لفظ(قرب) سے مشتق ہے
جسکا معنی ہے؛کسی شئی سے قریب ہو نا
اور قربانی رب العزت، اور بندہ کے درمیان قرب کا ایک اہم ذریعہ ہے بندہ قرب الہی اور رضائے الہی کے لئے قربانی کرتا ہے اللہ رب العزت نے
ہر امم و اقوام کو قربانی کا حکم دیا جس کا ذکر قرآن میں ہے (ولکلّ امۃ جعلنا منسکاً لّیذ کروااسم اللہ علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام )
(ترجمہ کنزالایمان )
ہر امت کے لئے ہم نے قربانی مقرر فرمائی کہ اللہ کا نام لیں اس کے دیے ہوئے بے زبان چوپایوں پر
(الحج آیت ٣٣)
سب سے پہلے کس نے بارگاہ خداوندی میں قربانی پیش کی اس سلسلے میں بھی قرآن ہماری رہنمائی کرتا نظر آتا ہے، حضرت آدم علی نبینا علیہ السلام کے بیٹے ہابیل، اور قابیل، نے بارگاہ خداوندی میں اپنے اپنےمال کی قربانی پیش کی تو اللہ رب العزت نے ہابیل کی قربانی کو قبول کیا اور قابیل کی قربانی مردود ہوئی تو قابیل نے حسداً کہاکہ میں تجھے قتل کردوں گا ھابیل نے جواباً کہاکہ اللہ رب العزت متقیوں کی قربانی قبول کرتا ہے
اس بات سے بھی ظاہر ہوا کہ اللہ رب العزت اسی
بندہ کی قربانی قبول کرتا ہے جس کا دل تقویٰ وپرہیزگاری سے معمور ہو اورقربانی قرب الہی ورضائے الہی کے لئے ہواس طرح قربانی کا آغاز ہوااور ہر امت میں یہ رسم باقی رہی انبیائے بنی اسرائیل کی امتیں بھی قربانی کیا کرتی تھیں
تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ سلطنت روما کے باشندے بھی اپنے دیوی دیوتاؤں کے لئے قربانی پیش کیا کرتے تھےاور یہ لوگ اس قسم کی قربانی میں نہ صرف جانور ہی بلکہ جانوروں کے ساتھ ساتھ بعض موقعوں پر انسانوں کی بھی قربانی دیا کرتے تھے تاریخ کی جھروکوں سے یہ بھی نظر آتا ہے کہ قدیمی مصر کے لوگ اپنے دیوتاؤں کاتقرب حاصل کرنے کے لئے اور ان کو راضی کرنے کے لئے ہرسال ایک دوشیزہ کو بناؤ سنگھار کرکے دریائے نیل کی موجوں کی نظر کردیا کرتےتھے اور یہ سلسلہ فتح مصر تک جاری رہا مگر جب مسلمانوں نے مصر فتح کیا تو حضرت عمروبن عاص رضی اللہ تعالی عنہ نے
خلیفئہ دوم حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ
تعالی عنہ کے دور خلافت میں پابندی عائد کردی
قربانی حضرت ابراھیم علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت ہے جو اس امت کے لئے باقی رکھی گئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قربانی کرنے کا حکم دیا گیا چناں چہ ارشاد باری تعالی ہے
(فصلّ لربّک والنحر)
تم اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو
محبوبئہ محبوب رب العالمین ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے راوی کہ
حضور پرنور جان عالمین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یوم النحر (یعنی دسویں
ذی الحجہ ) میں ابن آدم کا کوئی عمل خدائے تعالی کے نزدیک خون بہانے( قربانی کرنے) سے زیادہ پیارا نہیں اور وہ جانور قیامت کے دین اپنی
سینگ اور بال اور کھروں کے ساتھ آئیگا اور قربانی کا خون زمین پر گرنےسےقبل خدا کے نزدیک مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے لہذا اسکو خوش دلی سے کرو( ابوداؤد ترمزی وابن ماجہ)
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ حضور پرنور جان عالمین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس میں وسعت ہو ( یعنی مالک نصاب) اور وہ قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے ( ابن ماجہ)
(قربانی واجب ہونے کی شرائط)
اسلام یعنی غیر مسلم پر قربانی واجب نہیں
اقامت، یعنی مقیم ہونا،مسافر پر قربانی واجب نہیں ،
تونگری، یعنی مالک نصاب ہونا یہاں مالداری سے مراد وہی ہے جس سے صدقئہ فطر واجب ہوتا ہے
وہ مراد نہیں جس سے زکوۃ واجب ہوتا ہے
حریت، یعنی آزاد ہونا جو آزاد نہیں اس پر قربانی واجب نہیں کہ غلام کے پاس مال ہی نہیں،
(مسائل فقھیہ )
قربانی کئی قسم کی ہےغنی اور فقیردونوں پرواجب، فقیرپرواجب ہو غنی پر واجب نہ ہو،
غنی پرواجب ہو فقیرپرواجب نہ ہو،دونوں پرواجب ہو اس کی صورت یہ ہے کہ قربانی کی منت مانی یہ کہا کہ ،اللہ (عزوجل )کےلئے مجھ پربکری یا گائے کی قربانی کرناہےیااس بکری یااس گائے کو قربانی کرناہے،فقیرپرواجب ہوغنی پرواجب نہ ہو ، اس کی صورت یہ ہےکہ ،فقیر نے قربانی کےلئے جانور خریدااس پر اس جانور کی قربانی واجب ہےاور غنی اگرخریدتا تواس خریدنےسےقربانی اس پر واجب نہ ہوتی، غنی پرواجب ہو فقیر پر واجب نہ اس کی صورت یہ ہے کہ قربانی کاوجوب نہ خریدنے سے ہو نہ منت ماننے سے بلکہ خدانےجو اسے زندہ رکھا ہےاس کے شکریہ میں،اور حضرت ابراھیم علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت کی احیاء میں ،جو قربانی واجب ہےوہ صرف غنی پر ہے( بہار شریعت )
اللہ تعالیٰ اپنے حبیب پاک صاحب لولاک جناب محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے صدقے جملہ اغنیاء کو سنت ابراہیمی زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ سیدالمر سلین