اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے انبیاء کرام علیھم السلام کا قافلہ بھیجا۔ مگر جب یہ سلسلہ حضور خاتم النبیین سید المرسلین صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر ختم ہو گیا۔ تو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت کے اولیاء، علماء، صالحین، صدیقین کو یہ نعمت عطا فرمائی کہ وہ انبیاء کرام کی تحریک کو قائم رکھیں۔ یہ شرف عظیم پانے والے گروہ اولیاء میں سے ایک انتہائی متبرک نام گل گلزارِ قادریت، شمع بزم چشتیت، گلبن چمنستان لطیفیت، شیخ المشائخ، شعیب الاولیاء حضرت سیدنا یار علی قادری چشتی علیہ الرحمۃ والرضوان کا ہے۔
ولی کسے کہتے ہیں
(1) متکلمین کے نزدیک ولی وہ ہے جو اعتقاد صحیح مبنی بر دلیل رکھتا ہو اور اعمال صالحہ شریعت کے مطابق بجالاتا ہو۔ (2) بعض عارفین نے کہا ولایت نام ہے قرب الٰہی اور ہمیشہ اللّٰہ کے ساتھ مشغول رہنے کا۔ (3) ابن زید نے کہا ولی وہ ہے جس میں وہ صفت ہو جو اس آیت میں مذکور ہے « الذين اٰمنوا وكانوا يتقون » یعنی اولیاء اللّٰہ ایمان و تقویٰ دونوں کے جامع ہیں۔ (4) حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ولی وہ ہے جس کو دیکھنے سے اللّٰہ یاد آئے یہی طبری کی حدیث میں ہے۔ (5) بعض علماء نے فرمایا ولی وہ ہے جو خالص اللّٰہ تعالیٰ کے لئے محبت کرے۔
مذکورہ بالا تعریفوں میں سے ہر ایک تعریف مکمل جامعیت و معنویت کے ساتھ حضور شعیب الاولیاء رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کی ذات پر صادق آ رہی ہے اور آپ کی عملی زندگی اس دعویٰ کی واضح دلیل ہے۔
ولادت۔۔
حضور شعیب الاولیاء کی ولادت براؤں شریف ضلع بستی (سدھارتھ نگر) میں ١٣٠٧ه کو ہوئی۔
نسب۔۔۔
آپ علوی النسب یعنی محمد بن حنفیہ بن فاتح خیبر حضرت علی بن ابی طالب کرم اللّٰہ وجھہ الکریم کی اولاد امجاد میں سے ہیں۔ آپ کے والد ماجد کا نام فجر علی تھا ان کی پیدائش ١٢٧١ه اور وفات ١٣٥٦ھ میں جمعہ کے دن ہوئی۔ آپ نے ٨٥ سال کی عمر پائی۔
حضور شعیب الاولیاء رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کی حیات مبارکہ تقویٰ و طہارت کی بے مثال تفسیر تھی۔ آپ کا وصف ممتاز عشقِ رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم تھا۔ یہی وجہ تھی کہ قیام میلاد میں درود و سلام پڑھتے وقت آپ کی آنکھیں اشکبار ہو جاتیں۔ اور آپ پر ایک خاص استغراقی کیفیت طاری رہتی۔ گویا زبان حال سے آواز آرہی ہو:
دل ہے وہ دل جو تیری یاد سے معمور رہا
سر ہے وہ سر جو تیرے قدموں پہ قربان گیا
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے اسی بے پناہ محبت کا ہی نتیجہ تھا کہ تصلب فی الدین اور استقانت علی الحق آپ کی فطرت بن چکا تھا ،استقامت کے بارے میں عارفین نے فرمایا:الاستقامۃ فوق الکرامۃ استقامت کرامت سے بڑھ کر ہے۔
عشق رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہی کی بنا پر حضور شعیب الاولیاء، امام العشاق مجدد اعظم اعلیٰ حضرت رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے بے پناہ محبت فرماتے تھے۔
اپنی زندگی کے ہر موڑ پر چاہے عقیدتمندوں کا ہجوم ہو یا تخلیہ،تنہائی ہو یا انجمن امام اہلسنّت سے شدید وابستگی کا اظہار فرماتے اور اپنے خلفاء،مریدین ،متوسلین کو مسلک اعلیٰ حضرت پر چلنے کی تاکید بھی فرماتے رہتے اور بعد وفات بھی آپ کے قبئہ مزار کے دروازہ پر نصب سنگ مر مر کی تختی پر آج بھی شیدائے اعلیٰ حضرت کی عبارت فاضل بریلوی کی مقدس ذات کے ساتھ بے پناہ وابستگی کا واضح اعلان ہے۔
فاضل بریلوی کے مسلک و مذہب سے اتنا لگاؤ تھا کہ آپ نے رجسٹری کی دفعہ تین میں سجادہ نشینی کے لئے یہ ضابطہ مقرر فرمایا:
خانقاہ کی سجادہ نشینی کا اہل وہ شخص قرار پاسکتا ہے جو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ کا ہم عقیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ مستند عالم باعمل ہو۔
دفعہ ١٢۔۔۔ میں فرمایا: ارکانِ مجلسِ عاملہ کے لئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ کا ہم عقیدہ ہونا ضروری ہے ۔ورنہ وہ منصب رکنیت سے خارج ہے۔
حضور شعیب الاولیاء نے اپنی اس طرز زندگی سے اہل سنن کو یہ پیغام دیا ہے کہ اس دور پر فتن میں مسلک اعلیٰ حضرت ہی مسلک حق اور سچ ہے۔
محبت کا ضابطہ اور تقاضہ یہ ہے کہ محبوب کے محبوبوں سے محبت اور ان کے دشمنوں سے دشمنی رکھی جائے۔
حضور شعیب الاولیاء اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے محبوبوں سے حددرجہ محبت فرماتے اور ان کے اعراس مقدسہ میں اکثر حاضر ہوتے۔
لیکن جب عشق اپنے شباب کو پہنچا اور بیقراری حد سے بڑھ گئی تو آپ نے ہندوستان کے اکابرین محبوبانِ خدا کی زیارت کا قصد فرمایا۔چنانچہ ١٩٢٨ء میں ١٢ مہینوں کا رخت سفر باندھا۔اور دہلی، اجمیر، کلیر، گلبرگہ، ملتان بنگال، گجرات، ممبئی، بریلی ودیگر مقاماتِ مقدسہ پر حاضری دی۔
محبت ہمیشہ محبوب کے بے حجاب دیدار کا تقاضہ کرتی ہے۔حضور شعیب الاولیاء خود فرماتے ہیں: "جب میں کسی مزار پر حاضر ہوتا تو صاحب مزار کی جب تک بے حجاب زیارت نہ ہوجاتی دوسرے آستانوں کے لئے سفر نہ ہوتا”. بارگاہ مجدد اعظم میں حاضری کا واقعہ آپ خود یوں بیان فرماتے ہیں: اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت فاضلِ بریلوی قدس سرہ العزیز کے مزار پر حاضری وفاتحہ خوانی کے وقت مجھ پر ایک گہری کیفیت طاری ہوگئی تھی جس کا نقشہ میں الفاظ میں نہیں کھینچ سکتا۔عارف باللہ عالم باعمل عاشق رسول کو گویا میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔
جس طرح آپ محبوب خدا صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وسلم کے محبوبوں سے محبت کرتے اسی طرح ان کے دشمنوں سے حددرجہ دشمنی رکھتے۔حتی کہ اپنے مریدین،معتقدین میں بستی بستی مناظر اعظم مظہرِ اعلیٰ حضرت شیر بیشئہ اہلسنّت حضرت علامہ مولانا مفتی حشمت علی خان پیلی بھیتی علیہ الرحمۃ والرضوان سے وہابیہ دیابنہ اور تمام فرقہائے باطلہ کا رد کرواتے رہتے۔
فرمایا گیا ہے إن المحب لمن يحب مطيع محب جس سے محبت کرتا ہے اس کی پیروی بھی کرتا ہے۔حضور شعیب الاولیاء ، حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ہر امر میں پیروی کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ نماز نہ نماز بلکہ جماعت نہ صرف جماعت بلکہ تکبیر اولیٰ کا اتنا اہتمام کہ پینتالیس٤٥ برس تک کبھی تکبیر اولیٰ فوت نہ ہوئی۔بہت لمبے لمبے سفر بارہا کئے، حرمین طیبین کی حاضری بھی دی، بارہا ممبئی بھی گئے اور بیمار بھی رہے لیکن مسافرت ہو یا اقامت بہر صورت کبھی نہ جماعت چھوٹی اور نہ تکبیر اولیٰ فوت ہوئی۔
عشق رسالت اور اتباعِ شریعت کی بدولت آپ کی ذات سے بیشمار کرامتوں کا ظہور ہوا۔جن کا ذکر کسی اور موقعہ پہ کروں گا۔ان شاءاللہ تعالیٰ
وفات۔۔۔
فلک ولایت کا یہ بدر منیر ٢٢ محرم الحرام ١٣٨٧ه مطابق ٤ مئی ١٩٦٧ء كو ظاہراً ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ آپ کا مزار پاک براؤں شریف میں زیارت گاہِ خلائق اور فیض بخش خاص و عام ہے۔
معزز قارئین: سطور بالا سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی کہ حضور شعیب الاولیاء سچے عاشق رسول اور مسلک رضا کے پکے پابند تھے۔ اس لئے ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہمیں بھی حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے سچی محبت کرنی چاہئے اور مسلک اعلیٰ حضرت پر مضبوطی سے قائم بھی رہنا چاہئے۔
آپ کی حیات مبارکہ کا ہر گوشہ ایک الگ تحریر کا متقاضی ہے۔ فقیر بے توقیر، نبیرۂ شعیب الاولیاء حضرت حافظ مولانا محمد افسر علوی قادری چشتی خانقاہ یار علویہ براؤں شریف کے شکریہ کے ساتھ انھیں چند سطروں پر اکتفاء کر رہا ہے۔
دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے حبیب پاک صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے صدقے سرکار شعیب الاولیاء رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کے فیوض وبرکات سے مالامال فرمائے۔ اور انھیں کی طرح مسلک اعلیٰ حضرت پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم.
جمال یار کی رعنائیاں بیاں نہ ہوئیں
بہت کام لیا میں نے خوش بیانی سے
از قلم: محمد نعیم اسمٰعیلی امجدی علیمی، بہرائچ شریف