متفرقات

عنوان :مسافروں! روش کارواں بدل ڈالو

تلخیص: خلیل احمد فیضانی، راجستھان

بیان: حضرت علامہ مفتی اکمل صاحب قبلہ

اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی طرف اپنے آخری نبی کو مبعوث فرمایا اور پھر جو خوش قسمت ایمان لاۓ ان کی بابت ارشاد فرمایا کہ یہ نبی انہیں کتاب اور حکمت سکھاتے ہیں –
مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ: کتاب سے مراد قرآن پاک ہے, اور ایک قول کے مطابق حکمت سے مراد باطنی معانی ہیں اور ایک قول کے مطابق حدیث پاک ہے –
آقا علیہ الصلوہ والسلام نے افراد امت کی ہر موڑ پر اصلاح فرمائی , ان کے سامنے اصنام پرستی کی مذمت بیان فرمائی , عقائد حقہ روحوں میں راسخ کیے , مسائل شریعت سے روشناس کیا غرض یہ کہ کوئی موضوع نہیں بچا جس کو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے تشنہ چھوڑا ہو-
مذکورہ بالا تینوں امور جو قدرے ابہام کے ساتھ بیان ہوۓ , ہمارے دین میں بنیادی حیثت رکھتے ہیں اس لیے ان کے متعلق معلومات از حد ضروری ہے لہذا بطور خلاصہ ان کی مختصر وضاحت رقم کی جاتی ہے تاکہ صحیح طور سے ہم انہیں سمجھ سکیں –

جو امور دین میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں وہ یہ ہیں :

۱. عقائد
۲. احکام شرعیہ
۳. اخلاق
اخلاق جس میں ظاہری/ باطنی /صغیرہ /کبیرہ گناہ سب آجاتے ہیں –
جب ان تینوں چیزوں کی اصلاح ہوجاتی ہے تو اہل تصوف اسے تزکیہ نفس کا نام دیتے ہیں-

قرآن مقدس کتاب حکمت ہے, اس کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن-
محض ترجمہ قرآن پڑھا جاۓ تو مفہوم قرآن پاک اقل قلیل سمجھ آۓ گا ,جو کچھ اس کے متعلقات ہیں بغیر تفسیر کا مطالعہ کیے سمجھ نہیں آسکیں گے –
صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین) اہل اللسان تھے, ظاہری معنی تو فی الفور سمجھ لیتے تھے, لیکن باطنی معنی کی تحقیق کے لیے انہیں آقا علیہ الصلوہ والسلام کی بارگاہ میں رجوع کرنا پڑتا تھا اس لیے احادیث کی کتابوں میں ایک باب قائم کیا جاتا ہے. كتاب التفسیر کہ اس میں وہ احادیث ہوتیں ہیں جن میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین نے آقا علیہ الصلوہ والسلام سے مشکل مقامات کی وضاحت طلب کی ہو یا خود آقا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے وضاحت فرمادی ہو –
حاصل یہ کہ یہ تینوں امور دین کے بنیادی مآخذ ہیں جن کو آقا علیہ الصلوہ والسلام نے بطریق کمال نا صرف مکمل فرمایابلکہ ہر ایک کو اس کی شرح و بسط کے ساتھ بیان بھی فرمادیا –

اب جوبھی حضرات تبلیغی امور سے وابستہ ہوں یا کسی بھی زاویے سے مذہبی لأن کے اندر آتے ہوں ان سب پر ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے کہ وہ ان مذکورہ تین اصولوں پر توجہ کریں اور قوم کو ایک صحیح سمت کی طرف متوجہ کریں –

استاتذہ کرام اس ذمہ داری کو اس طور پر انجام دیتے ہیں کہ وہ اپنے شاگردوں کا تزکیہ کرتے ہیں ,انہیں بہتر سے بہترین تربیت دیتے ہیں, کتاب و حکمت کے انمول موتی ان پر نچھاور کرتے ہیں ,جب یہی طلبہ اپنے تعلیمی نصاب سے فارغ ہوجاتے ہیں تو اب ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ انہوں نے جو کچھ اپنے استاتذه کرام سے حاصل کیا اسے عوام تک بہتر طریقے سے پہنچأیں-

اب یہاں یہ وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ طلبہ مدارس بھی دو طرح کے ہوتے ہیں; ایک وہ جنہوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کے طریق کو فولو کیا یعنی ان نفوس عالیہ کی طرح پہلے تو خود بڑی ہی محنت و جانفشانی سے علم حاصل کیا اساتذہ کا ادب کیا ,سرخ روۓ اور پھر اکناف عالم میں اشاعت اسلام کے لیے نکل پڑے –
خلوت /جلوت ,بیع /شراء غرض یہ کہ اپنی ہر چیز شریعت مطہرہ کے مطابق کردی, یہ وہ خوش نصیب طلبہ ہوتے ہیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کے نقش قدم پر ہوتے ہیں اور ان کے فیض سے فیض یاب ہوکر ایک عالم کو فیض یاب کردیتے ہیں –

دوسری قسم کے وہ طلبہ ہوتے ہیں جو ان چیزوں یعنی درس گاہ /کتاب /اساتذہ !ادارہ/سے رسمی تعلقات رکھتے ہیں –
دوران طالب علمی صحیح ڈھنگ سے کتابیں سمجھتے ہیں , نا ہی پڑھا ہوا محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نا ہی اپنے اوپر عائد ہونے والی تبلیغی ذمہ داریاں سمجھتے ہیں –
اس نوعیت کے طلبہ جب درس گاہ سے باہر نکلتے ہیں تو کتاب کو بند کرکے بڑے فخر سے مذاقیہ انداز میں یوں گویا ہوتے ہیں کہ تُو اب تو کل ہی کھلے گی
ان تن پرور رسمی طلبہ کا دماغ دوران درس گلی کوچوں کا مسافر بنا رہتا ہے ,نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ استاذ اپنا سارا پرئڈ ختم کردیتا ہے اور ان دیوانوں کے منہ پر ہوأیاں اڑ رہی ہوتیں ہیں –
ايک قابل استاذ face readar بھی ہوتا ہے وہ تاڑ لیتا ہے کہ ان کی حالت کیا ہورہی ہے ,تاہم انہیں بار بار سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ کہیں وہ قابل انسان بن جائیں,-
مفتی عبد القیوم ہزاروی رحمہ اللہ تعالی فلسفہ پڑھایا کرتے تھے ایک سبق کو چار سے پانچ بار تک پڑھا تے اور پھر طلبہ سے مخاطب ہوکر فرماتے کہ آپ لوگوں میں سے کون ہے جو کھڑے ہوکر سارا کچھ سنادے جو میں نے بیان کیا –
باقی طلبہ بھی کوشس کرتے تھے, لیکن مجھ کو ان کی بہ نسبت زیادہ حساس رہنا پڑتا تھا کیوں کہ اس وقت میں تنظیمی اعتبار سے دعوت اسلامی کے ماحول میں تھا اگرچہ اب بھی ہوں-
یہ چیز ہر طالب علم کے اندر ہونی چاہیے کہ دوران تعلیم یا بعد فراغت لوگوں کو آپ کی وجہ سے آپ کے ادارے یا تنظیم پر انگشت نمائی کا موقع نہیں ملنا چاہیے
,بعض نا اہل (اللہ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے آمین) بالکل سطحی مزاج کے ہوتے ہیں جو ادارہ میں رہتے ہیں تو اساتذہ کو ایذا دیتے ہیں اور جب فراغت ہوجاتی ہے تو ادارہ کے لیے بدنامی کا سبب بن جاتے ہیں. اللہ تعالی ہمیں محفوظ فرماۓ آمین

طالب علمی کے دور میں تکرار کا التزام کرنا چاہیے ,اس تکنیکی دور میں آپ فیس بک یا وہاٹس ایپ پر فری میں طلبہ کو پڑھا کر اپنی صلاحیت بہتر سے بہترین کرسکتے ہیں –

یاد رہے!!
آپ کا یہ فعل قوانین ادارہ کی زد میں نہیں آنا چاہیے یعنی اگر ادارہ تکنیکی وسائل کے استعمال کی اجازت فراہم نہیں کرتا ہے تو آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہی تکرار پر اکتفا کریں –

شارٹ وقت میں اپنے آپ کو مذہب و ملت کے لیے مؤثر بنانے کی کوشش کریں –
اور یہ اثر و رسوخ اسی طالب علم میں پیدا ہوگا ,جو محنت کرے گا اور ٹال مٹول سے کام نہیں لے گا-
ہمارے دور طالب علمی میں ہمارا ایک ساتھی تھا جو محنت نہیں کرتا تھا ,ہم نے متعدد بار انہیں سمجھایا لیکن آۓ دن کی فہمائش بھی سود مند ثابت نا ہوسکی, بالآخر اس نے یہ لأن ہی چھوڑ دی, چند سال بعد میں نے اس کو برگر کی ریڈی لگاتے دیکھا, یقینا جو دین کو چھوڑے گا وہ اسی طرح خوار ہوگا-
دوسری اہم چیز جس کا تقریبا/ تقریبا فقدان ہے وہ یہ کہ ہمارے طلبہ و فارغین کا تزکیہ نفس نہیں ہوتا ;تزکیہ نفس بہت ضروری ہے اور یہ اسی وقت ہوگا جب ان کی تربیت صحیح ڈھنگ سے ہوئ ہو ,یقینا جو عالم تربیت یافتہ ہوتا ہے,وہ اپنی ذاتیات کو پیچھے رکھتا ہے اور مذہب و مسلک کو مقدم ,لیکن جس کا نفس مزکی نہیں ہوتا وہ نا ہی تربیت قبول کرتا ہے اور نا ہی اکابرین کا ادب , فیضان علم سے محروم ایسا نام کا عالم اپنی دکان الگ سے چمکانے کی کوشش کرتا ہے , پانچ /دس ایسے مرید خرید لیتا ہے جو پانچ اس کے داہنے ہاتھ کو اور پانچ بأیں ہاتھ کو چومتے نہیں تھکتے –
غیر تربیت یافتہ عالم کا معاشرے میں دوسرا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس کے فالورز لادینی کے شکار ہوجاتے ہیں ,اس لیے کہ جب متبوع ہی تربیت یافتہ نہیں ہوگا تو متبعین کا بیڑا غرق ہونا ایک بدیھی امر ہوگا –
یہ حکایت معروف ہے کہ ایک مرتبہ امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کہیں تشریف لے جارہے تھے راستے میں کیچڑ تھا اسی اثنا میں ایک جوان سامنے آتا دکھأی دیا ,آپ نے شفقت بھرے لہجے میں فرمایا کہ صاحبزادے دھیان سے چلو کہیں گر نا جاؤ اس جوان نے یہ سنا تو یوں گویا ہوا کہ میں گروں گا تو اکیلا میں ہی گروں گا آپ سنبھل کر چلیں کیوں کہ آپ متبوع ہے آپ پھسل گۓ تو ساری متبعین پھسل جائیں گے –
یہ بھی المیہ ہے کہ جب آپ
طالب علمی کے زمانے میں ہوتےہیں تو اساتذہ کے ہاتھ چومتے نہیں تھکتے, ادارہ کے وفادار رہنے کی گویا قسمیں اٹھا چکے ہوتے ہیں ,لیکن جیسے ہی فراغت ہوتی ہے
تو کون اساتذہ ?
کہاں کا ادارہ ?
کیسی وفاداری?
پھر ان کی زہر میں بجھی ہؤی تقریں سننے کےقابل ہوتی ہیں ,ہر سو زہر افشانیاں کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں –
فقیر کا ایک شاگرد ہے جس نے کسی شخصیت کے خلاف برسرعوام اختلافات کو ہوا دینا شروع کردیا میں نے ان کی فہمائش کی کہ آپ ایسا نا کریں اس سے مذہب و ملت کا نقصان ہوتا ہے لیکن وہ نہیں مانے تو میں نے بھی انہیں بلاک کردیا , اور اب سننے میں آیا ہے کہ وہ میرے بارے میں یہ کہتے ہیں میں نے اکمل کا کویٔی کلمہ تھوڑی پڑھا ہے یقینا ان کے جیسا مؤدب شاگرد ہونا ضروری ہے کہ جواپنے استاذ کو اوقات دکھاۓ اور ساری عزت اٹھاکر ہاتھ میں رکھ کر بولے, آپ اپنی اوقات میں رہیں!!!
زیادہ سر پر چڑھنے کی ضرورت نہیں ہے , ایسے طلبہ و فارغین جو اپنے اساتذہ کرام کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہیں , زمانے بھر میں رسوا ہوتے ہیں اور در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوتے ہیں –
یہ ہماری بڑی خامی ہے کہ ہم بے جا اختلاف کرنے والوں کی حمایت کرتے ہیں ,یا حوصلہ افزائی کرکے ان کے بازوؤں کو مزید توانائی فراہم کرتے ہیں, ہونا یہ چاہیے کہ ہم اول وہلہ ہی میں ان نفرت کے پجاریوں کو سختی سے منع کریں اور آئندہ کے لیے احتیاط برتنے کی تلقین کریں اور اپنے معتقدین کو علماء اہل سنت /اسلامی تنظیموں /مذہبی قائدین کے خلاف بھڑکأی ہؤی آگ میں پھونک کے بجاۓ پانی کے دو بوند ڈالنے کا درس دیں –
بعض بانیان مدارس (الا ماشاء اللہ) اس مزاج کے ہوتے ہیں کہ جب کوئی طالب کسی دوسرے ادارے سے فرار ہوکر ان کے ہاں پہنچتا ہے اور اپنے مادر علمی /اساتذہ کے خلاف زہر اگلتا ہے تو یہ حضرات انہیں جھڑکتے نہیں ہیں کہ تم کسی سنی ادارے /علما کی برائی کیوں کر رہے ہو بلکہ مزید اپنی بھڑاس نکالنے کے لیے یوں گویا ہوتے ہیں-
ہاں !!تم بالکل درست کہ رہے ہو ہمیں تو پہلے ہی پتا تھا کہ وہاں کا نظام صحیح نہیں ہے تم نے اچھا کیا اپنا وقت ضائع نہیں کیا اور ہمارے پاس آگۓ ,اس طرح کی توڑنے والی باتیں جب ہمارے اندر سے ہی ہونے لگیں تو قوم کا محافظ اللہ ہی ہے –

ایک طالب علم ہمارے پاس آیا اور داخلہ کی خواہش کی فقیر نے ایک سوال پوچھا کہ آپ اپنے پرانے دارالعلوم کو چھوڑ کر یہاں کیوں آۓ ہو تو انہوں نے کہا کہ اس مدرسے کانظم و نسق بہتر نہیں تھا اور نا ہی وہاں کے استاتذہ صحیح ڈھنگ سے تدریس کرواتے ہیں تو میں نے انہیں صرف ایک ہی بات کہی کہ میں اگرتمہارا داخلہ لے لوں تو میری/ ادارے کی /اور ادارے کے اساتذہ کی برائی کب سے شروع کروگے?
اس نے کہا نہیں !میں آپ کے پاس شوق سے آیا ہوں آپ کی کبھی بھی برائی نہیں کروں گا ,تو میں نے ان سے کہا کہ آپ پہلی والی جگہ بھی تو شوق سے ہی گۓ تھے ,آج میرے سامنے ان کی مذمت کر رہے ہو کل کسی اور کے سامنے میری ہجو کروگے ,جاؤ میں تمہارا داخلہ نہیں لیتا اور میں نے ان کا داخلہ لیا ہی نہیں –
جن کا تزکیہ نفس نہیں ہوتا وہ اصلاح پذیر نہیں ہوتے تکبر و غرور کے پتلے بنے پھرتے ہیں
چھوٹی چھوٹی باتوں میں اختلافات و مناظرے شروع کردیتے ہیں ,جیسے حق چار یار کہنا چاہیے یا نہیں وغیرہ-
بعض ایسی عقابی فکر کے دھنی ہوتے ہیں کہ جو جلسے کے پوسٹر میں اپنے نام کی چھوٹی و غیر ملون سائز تک برداشت نہیں کرتے , جلسے کو ختم ہوۓ مدت ہوجاتی ہے , دیواروں پہ چسپاں پوسٹرز بھی اپنے آخری مراحل میں ہوتے ہیں اور ادھر یہ صاحبان جبہ و قبہ پوسٹر میں اپنے ناموں کی تقدیم و تاخیر پر ہی ایک دوسرے کی پگڑی اچھال رہے ہوتے ہیں –

نیز ایک دوسرے کی تذلیل ,اپنے مقتدیٰ کی بے جا حمایت ,علم سے دوری یہ چیزیں دیگر مکاتب فکر میں بھی پائی جاتی ہیں لیکن ہمارے مکتبہ فکر میں تو بہت زیادہ پائی جاتی ہے
ہم لوگ ( lag pulling) یعنی ٹانگ کھنچنے میں مہارت تامہ رکھتے ہیں
اگر کویٔی بھائی ترقی کررہا ہو تو اس کو گرانے کے لیے یہ مکر تراشتے ہیں کہ ہم اس کو تکبر سے بچانے و عاجزی سکھانے کے لیے ایسا کر رہے ہیں, حالاں کہ ان کی نیت میں نفاق اور اصلاح میں فساد مضمر ہوتا ہے –
دورافتاد علاقوں میں تباہی مچی ہوئی ہے, لوگ اپنے متبعین کو ذاتیات کے لیے استعمال کر رہے ہیں
اس کاصریح مطلب ہے کہ ابهی ہمارے پیشواؤں کا بھی تزکیہ نفس نہیں ہوا ہے, چہ جائیکہ ان کے متبعین کا تزکیہ ہو
اگر کویٔی یہ کہے کہ اختلاف اچھی چیز ہے
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کے درمیان بھی واقع ہوۓ تھے
اس نامعقول استدلال پر بند باندھنے کے لیے ایک بنیادی بات عرض ہے اسے منصفانہ مزاج کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں –
یہ ہمارا بنیادی عقیدہ ہے کہ جیسے اللہ تعالی کی ذات قدیم ہے اسی طرح اس کی جملہ صفات بھی قدیم ہیں –
اس کی صفات ذاتیہ میں سے ایک علم ہے اور دوسرا کلام
ابھی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین پیدا بھی نہیں ہوۓ تھے کہ ان بارے میں اللہ تعالی کا علم موجود ہے
آیت کریمہ ہے :
رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ
ترجمہ: اللہ تعالی ان سے راضی اور وہ اللہ تعالی سے راضی
اللہ تعالی سب جانتا ہے جو کچھ ان کے درمیان ہونے والا ہے اس کے باوجود یہ اعلان فرمایا
ترجمہ : کہ :اللہ تعالی ان سے راضی اور وہ اللہ تعالی سے راضی
اس لیے ہمیں چاہیے کہ ان پاک باز ہستیوں کے اندرونی معاملات کو دیکھنے کے بجاۓ اپنی آخرت کی فکر پیدا کریں.

آج ہمارا تکبر اتنے ارتقا پر پہنچ چکا ہے کہ ہم کسی کو خاطر میں نہیں لاتے, اکابرین/اساتذہ/والدین/ کسے باشد!کوئی بھی ہمارے تنقیدوں کی زد سے نہیں بچا اللہ تعالی ہمارے حال پر رحم فرماۓ آمین
جب دو طالب علم کسی مدرسہ میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں , وہاں پر کسی معاملہ کو لے آپس میں ان بن ہوجاتی ہے تو بعض ناعاقبت اندیش فارغین اسی معاملہ کو توڑ مروڑ کر قوم کے سامنے اس نوعیت کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ سامنے والے کی بنی بنأی عزت ملیامیٹ ہوکر رہ جاتی ہے –
اللہ تعالی نے تم سب فارغین کو مسند عزت و تاج وقار عطا فرمایا تھا لیکن تم نےخود ہی اپنی نازیبا حرکتوں سے اس وقار کو مجروح کردیا
بعض آپس میں ایک دوسرے کے خلاف کانٹے دار چھریاں تیز کررہے ہوتے ہیں ,حریف کو نقصان پہنچانے میں کؤی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے
لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ:
وہ کسی کو بھی اس کے مقدر میں لکھے ہوۓ سے زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتے
حدیث پاک ہے کہ آقا علیہ الصلوہ والسلام نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما سے ارشاد فرمایا کہ اے ابن عباس ساری دنیا تجھے نفع پہنچانے پر مجتمع ہوجاۓ تو بھی اتنا ہی پہنچا سکتے ہیں جتنا تیری قسمت میں لکھا ہوا ہے اور اگر ساری دنیا تجھے نقصان پہنچانے پر مجتمع ہوجاۓ تو بھی اتنا ہی نقصان پہنچا سکتے ہیں جتنا تیری قسمت میں لکھا ہوا ہے –
ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے کہ کسی طرح تابع کو متبوع سے بیزار کیا جاۓ ,عوام الناس میں اپنی مقبولیت کے جھنڈے گاڑنے کے لیے ہر داؤ کھیلا جاتا ہے , ہر مکر کو آزمایا جاتا ہے; اگرچہ اس کی زد میں ادارہ/اساتذہ ہی کیوں نا آرہے ہو
اس حرکت شنیعہ سے اساتذہ /ادارے کا کچھ نقصان ہو یا نا ہو لیکن تمہاری عزت ضرور داؤ پر لگ جاتی ہے
اور خصوصا ہم مذہبی افراد کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ کہیں ہم ذاتیات کی وجہ سے کسی ایسے شخص کی مخالفت تو نہیں کر رہے ہیں جو رب تعالی کی بارگاہ میں ہم سے زیادہ مقبول ہو
ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ کیا معلوم ہم زیادہ مقبول ہیں یا وہ ;کہ جس کی برائی کرتے اور جس کے خلاف نفرتوں کے بازار گرم کرتے ہم نہیں تھکتے –
یہ ایک شیطانی حرکت ہے کہ کسی کی بنی بنأی عزت کو خراب کیا جاۓ ,اور ایک مومن کی عزت نفس مجروح کرنے کا وبال اپنے سر لیا جاۓ
یہ مسٔلہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر کسی بستی میں ایک مسجد بنی ہوئی ہو اور دوسرا شخص بالکل اسی مسجد کے جوار میں دوسری مسجد بنانے کی کوشش کرے تو اس کا یہ فعل مکروہ ہے کیوں کہ یہ مسجد,مسجد اول کے لیےتقلیل جماعت کا باعث ہوگی لہذا وہ مسجد ,مسجد ضرار کے حکم میں ہوگی
ہمارے طبقے میں غیبت عام ہوچکی ہے اور جب
ہم خود غیبت میں ملوث ہوں گےتو اپنے شاگردوں کو کیا منع کریں گے کہ آپ غیبت جیسی بیماری سے بچاکرو
اس لیے دین کو اپنے اوپر اور اپنے گھر والوں پر نافذ کرنا ازحد ضروری ہے تب کہیں جاکر یہ قلبی خباثتیں , و اندرونی رنجشیں دفع ہوں گی
ہمارے معاشرہ میں مشاہدہ یہ ہوتا کہ آدمی دین دار ہے,بلکہ عالم ہے بیوی بالکل جاہلہ ہے اسے پاکی ناپاکی کے مسائل تک نہیں آتے
بیرون خانہ تبلیغ کرکے نا جانے کتنوں کو علم دین سکھادیا , لیکن اپنا گھر جہالت کا مرکز ہی بنا رہا اس لیے ہم سب کی برابر ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے اہل خانہ کو بالخصوص بیویوں کو علم سکھائیں ہوسکتا ہے ذہن میں یہ خیال ہو کہ عالم کا آخرت میں بڑا درجہ ہے, بیوی کچھ بھی کرے, میدان محشر میں کہوں گا کہ وہ میری بیوی ہے تو کہا جاۓ گا چوں کہ یہ ایک عالم دین کی بیوی ہے اس لیے ساری زندگی کی غلطیاں نظر انداز کرکے جنت کا سرٹیفکٹ دیا جانا چاہیے ,یہ ایک شیطانی وسوسہ ہے جو گاہے بگاہے کو لاحق ہوتا رہتا ہے اس سے احتراز اولی و اجتناب احسن
ایک مرتبہ آقا علیہ الصلوہ والسلام گھر مبارک میں داخل ہوۓ تو دروازے پر تصویر والا پردہ آویزاں تھا چہرہ انور کا رنگ متغیر ہوگیا فرمایا. یہ کیا ?حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا نے عرض کی کہ میں اللہ عزوجل و رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بارگاہ میں توبہ کرتی ہوں, مجھ سے کیا قصور سرزد ہوا ?آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں ان تصویر والوں کو قیامت میں جھنم کا عذاب ہوگا فرماتی ہیں کہ پھر میں نے آقا علیہ الصلوہ والسلام کے گدے مبارک کے گرد اس پردے کو لپیٹ دیا
یعنی آپ نے اس چیز کو نظر انداز نہیں فرمایا بلکہ اس پر وعید بیان فرمأی اور اس خلاف شرع چیز کو ہٹوادیا
اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ اپنی تبلیغ کا آغاز اپنے گھر سے کریں
ورنہ بیوی اگر جاہلہ ہوگی تو بچوں کی تربیت کیسے ہوپاۓ گی
یہ واجب نہیں کہ آپ عالمہ سے ہی نکاح کریں ہاں یہ ضرور ہے کہ آپ کا نکاح اگر غیر عالمہ سے ہوا ہے تو پردہ کروانا آپ پرواجب ہے
وہ عقد میں آگئی لیکن ابهی تک اسے درست عقیدہ نہیں معلوم ہے اس لیے اسے عقیدہ سکھانا ہوگا
اگر غلطی سے کلمہ کفر صادر ہوگیا اور وہ مرتدہ ہوگئی تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا کیا بروز قیامت یہ کہیں گے کہ باہر تبلیغ اتنی کرنی پڑتی تھی کہ اندر کے لیے وقت ہی نہیں ملا

کیا ہمارے جوان یہ کہیں گے کہ
چرسی /موالی.جواری/شرابی,فیس بک /یوٹیوب/وہاٹس ایپ میں مستغرق رہنے و تاش کی گڈیاں سنبھالنے/ سٹے لگانے کا وقت تو تھا لیکن دین سیکھنے کے لیے وقت ہی نہیں تھا جس کی وجہ سے قدم قدم پہ غلطیاں سرزد ہؤیں-
اور اگر آپ نے نعت خوانوں کی تسلیوں/دلاسوں سے یہ نتیجہ اخذ کرلیا ہے کہ جو مرضی کرو
ع. ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے جنت رسول اللہ کی
محشر میں پہنچیں گے
فرشتے پوچھیں گے
کون ہو سنی ?
جی جی سنی ہوں !
آجاؤ جو کچھ کیا کویٔی بات نہیں
زنا کیا /چرس پیا /ظلم کیا / نمازیں قضا کی
سنی ہے نا !
سیدھا جنت میں آجا
آپ کو اگر یہی خواب دکھاے گۓ ہیں تو مفتی منیب الرحمن صاحب کا یہ جملہ دل کے کانوں سے سمجھنے کی کوشش کریں کہ آپ نے کیسے ان نعت خوانوں کی سنہری جنت کی عقدہ کشائی کی –
ایک جلسے میں مفتی صاحب تشریف فرماتھے نعت خوان لوگوں کو پہنچارہے تھے
کبھی جنت کی سیر کروارہے تھے تو کبھی ساتویں آسمان پر چڑھارہے تھے
جب آپ نے تقریر شروع کی تو فرمایا آپ لوگ ساتویں آسمان پر پہنچے ہوۓ تھے اب میرا بیان شروع ہونے والا ہے
براہ کرم ذرا نیچے تشریف لے آٔیں اور میری تقریر سن لیں
ہمارے لڑکے نماز چھوڑیں, جماعت چھوڑیں کویٔی بات نہیں جب جلسے میں جاتے ہیں
نعت خوان جلسے میں کہتے ہیں تم سب سرکار صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی محبت میں آۓ ہو اور جو سرکار کی محبت میں آتا ہے سرکار اسے محبت سے دیکھتے ہیں جسے سرکار محبت سے دیکھ لیں کیا وہ جہنم میں جاۓ گا ????
آگے سے جواب ملتا ہے نہیں نہیں !!!
ترغیب و ترہیب تبلیغ دین کے دو بازو ہیں اور جو مبلغ ان میں سے کسی ایک میں بھی افراط و تفریط کا شکا ہوا وہ اپنے مشن میں ناکام ہوا ہمارے نعت خوان حضرات ترغیب میں افراط و ترہیب میں تفریط کے شکار ہے جو سراسر طور پر اصول تبلیغ کے خلاف ہے
یقینا ہم سے بڑے عاشق صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین تھے انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہم صرف عشق مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی وجہ سے جنت میں پہنچ جاءیں گے
وہ عشق میں کامل و اکمل ہی اس لیے تھے کہ انہوں نے آقا و مولا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی کامل و اکمل اتباع کی
ہم لوگ نعرہ لگاتے ہیں
ع غلامی رسول. میں موت بھی قبول ہے
جو ہونا عشق مصطفی تو زندگی فضول ہے
یہ نعرہ بہترین ہے. لیکن یہ نعرے بھی تو لگانے کا ماحول بنائیں:
غلامی رسول میں ڈاڑھی بھی قبول ہے کہ حدیث پاک میں ڈاڑھی کی ترغیب دلائی گئی ہے –
غلامی رسول میں علم کا حصول بھی قبول ہے کہ فرمایا گیا ہے علم کا طلب کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے –
غلامی رسول میں نیکی کا حکم دینا بھی قبول ہے کہ قرآن مقدس میں جابجا نیکی کی ترغیب دلائی گئی اوراس امت کے خیر امت ہونے کی وجہ بھی اسی کو قرار دیا گیا –
غلامی رسول میں گناہ چھوڑنا بھی قبول ہے
اس لیے کہ آقا علیہ الصلوہ و السلام نے جب بھی گناہ ہوتے دیکھا تو اظہار ناراضگی فرمایا
آج جوان لڑکے نماز پڑھتے ہیں نا علم سیکھتے ہیں , رقص و سرور کی محفلوں میں مگن رہتے ہیں اس کے باوجود کہتے ہیں کہ ہم اپنے سینوں میں محبت مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم رکھتے ہیں
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ محبت رسول و نافرمانی جمع ہوسکتی ہے لیکن بغیر اتباع کے محبت رسول کامل نہیں ہوسکتی بلکہ ناقص و ادھوری ہی رہتی ہے ہم تو اہل سنت و جماعت ہیں ہمیں ادھوری محبت نہیں کرنی ہے بلکہ سرکار علیہ الصلوہ والسلام سے کامل محبت کرنی ہے
اللہ تعالی ہمیں قول و فعل کے تضاد سے مامون فرماۓ
آمین بجاہ النبی المصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

نوٹ: یہ تحریر حضرت مولانا مفتی اکمل صاحب قبلہ زید مجدہ کے ایک بیان کی تلخیص ہے,جومصلح قوم وملت حضرت مولانا حافظ سعید صاحب قبلہ اشرفی (بانی و مہتمم دارالعلوم فیضان اشرف باسنی ناگور شریف ) کے حکم پر رقم کی گئی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے