تحریر : طارق انور مصباحی
کفر فقہی کی تیسری قسم کفر احتمالی ہے۔ اس میں کفر کا احتمال مرجوح ہوتا ہے اور عدم کفر کا احتمال راجح ہوتا ہے۔ ایسے قول پر کفر کا حکم نہیں دیا جاتا ہے،بلکہ ایسا قول کرنے کوحرام و ناجائز،خلاف اولیٰ وغیرہ بتایا جاتا ہے۔ احتمال کفر جس قدر مرجوح وضعیف ہوگا،اسی قدر حکم میں تخفیف ہوگی۔جب کفر ثابت نہ ہو، لیکن گناہ ثابت ہوتو توبہ کا حکم ہوگا۔
کفرفقہی کی قسم سوم:کفر احتمالی
بعض الفاظ میں مختلف معانی کا احتمال ہوتا ہے۔بعض کفریہ معانی ہوتے ہیں اور بعض معانی غیرکفر یہ ہوتے ہیں۔ایسے محتمل اور موہم الفاظ وکلمات میں گر احتمال کفر مرجوح ہو، اورحرمت وعدم جواز کاحکم عائد ہوتوقائل کو توبہ ورجوع کا حکم دیاجاتاہے۔ تجدید ایما ن وتجدید نکاح کا حکم نہیں دیا جاتا۔ محض توبہ کا حکم اس وقت ہے جب قائل نے کفری معنی مراد نہ لیا ہو۔اگر کفری معنی مراد لیا،یا کسی معتبرذریعہ سے کفری معنی ثابت ہو گیا تو پھر کفر فقہی یاکفر کلامی جو بھی ثابت ہوگا، اسی کا حکم نافذ ہوگا۔
کفر کلامی وکفر فقہی پر توبہ،تجدید ایمان وتجدید نکاح کا حکم
کفر کلامی کوکفر اتفاقی کہا جاتا ہے،کیوں کہ اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہوتا،یعنی ایسا شخص متکلمین اور فقہا دونوں کے اصول کے مطابق بھی کافر قرارپاتا ہے۔
اگر کوئی متکلم وفقیہ تمام ضروری حقائق سے واقف وآشنا ہوکر اور تمام لازمی امور کے ثبوت شرعی کے تحقق کے بعد بھی کافر کلامی کو مومن مانتا ہے تو اس پر حکم کفر عائد ہوگا۔
کفر فقہی میں متکلمین کا لفظی اختلاف ہوتا ہے۔وہ کافر فقہی کوگمراہ وبدعتی کہتے ہیں۔
یہ محض تعبیری اور اصطلاحی اختلاف ہے۔ موجودہ قسطوں میں کفر فقہی کی تفصیل مرقوم ہے۔چوں کہ کفرفقہی کی متعددصورتیں ہیں۔ کون سے کافر فقہی کے لیے متکلمین کا کیا حکم ہے، اس کی تفصیل موجودہ قسطوں میں مرقوم ہے۔کفر کلامی وکفر فقہی دونوں میں توبہ،تجدید ایمان اور تجدید نکاح کا حکم ہے۔
کفر احتمالی میں صرف توبہ واستغفارکا حکم ہے۔ اسی طرح غلطی سے کفریہ کلام زبان سے نکل جائے،تب بھی صرف توبہ واستغفار کا حکم ہے۔
(1)قال الحصکفی:(فی شرح الوھبانیۃ للشرنبلالی:مَا یَکُونُ کُفرًا اِتِّفَاقاً،یبطل العَمَلَ وَالنِّکَاحَ وَاَولَادُہٗ اَولَادُ زِنَا-وما فیہ خلافٌ،یُومَرُ بالاستغفاروالتوبۃ وتجدیدِ النکاح) (الدرالمختار:جلدچہارم:ص432)
(2)قال فی الفتاوی الہندیۃ:(ما کان فی کونہ کُفرًا اِختِلَافٌ-فان قائلہ یومربتجدید النکاح وبالتوبۃ و الرجوع عن ذلک بطریق الاحتیاط)
(فتا وٰی عالمگیری:جلددوم:ص283)
(3)قال الشیخ محمد بن سلیمان اَ فندی:(وَمَا کَانَ فی کونہ کفرًا اِختِلَافٌ،یومر قائلہ بتجدید النکاح وبالتوبۃ والرجوع عن ذلک احتیاطًا)
(مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر: ص688)
توضیح:کفریہ کلمات کی چار صورتوں کے احکام مندرجہ ذیل ہیں۔
(1)کفر کلامی کوکفر اتفاقی کہا جاتا ہے۔ اس میں متکلمین وفقہا میں سے کسی کا اختلاف نہیں ہوتا۔کفر اتفاقی میں نکاح باطل ہوجاتا ہے۔اس میں توبہ،تجدید ایمان وتجدید نکاح کا حکم دیا جاتا ہے۔اگر بیوی اس کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو اسے اختیار ہے۔کفر کلامی میں اعمال سابقہ بھی تباہ ہوجاتے ہیں۔ان شاء اللہ تعالیٰ اس کے مفصل احکام مرقوم ہوں گے۔
(2)کفر فقہی کوکفر اختلافی کہا جاتا ہے۔ اس میں متکلمین کا اختلاف ہوتا ہے۔وہ کفر فقہی قطعی کو ضلالت کہتے ہیں،اور کفر فقہی ظنی اگر تمام فقہا کے یہاں اجماعی ہوتو اس کوبھی ضلالت وبدعت کہتے ہیں۔ کفر فقہی میں توبہ،تجدید ایمان وتجدید نکاح کا حکم دیا جاتا ہے۔
(3)اگر غلطی سے کفریہ کلام زبان سے نکل جائے تو کفر کاحکم عائد نہیں ہوتا۔ صرف توبہ واستغفار کا حکم ہوتاہے۔
(4)کفر احتمالی میں بھی صرف توبہ واستفا رکا حکم دیا جاتا ہے۔
غلطی سے کفریہ الفاظ زبان سے نکلنے پر توبہ کا حکم
غلطی سے کفریہ الفاظ زبان سے صادرہوجائیں تو قائل پر کفرکا حکم عائد نہیں ہوتا۔ صرف توبہ،استغفار اوررجوع کا حکم دیا جاتاہے۔مندرجہ ذیل عبارتوں میں تفصیل ہے۔
(1) قال الشامی:(قولہ(وَاَولَادُہ اَولَادُ زِنَا)کذا فی فصول العمادی -لکن ذکر فی”نور العین“-وَیُجَدَّدُ بَینَہُمَا النِّکَاحُ اِن رَضِیَت زَوجَتُہ بالعود الیہ وَ اِلَّا فَلَا تُجبَرُ-والمولود بینہما قبل تجدید النکاح بالوطیء بعد الردۃ، یثبت نسبُہ منہ-لکن یکون زنا-الخ-قلتُ:وَلَعَلَّ ثبوتَ النَّسَبِ لِشُبہَۃِ الخِلَافِ-فَاِنَّہَا عند الشافعی-لَا تَبِینُ مِنہُ-تأمل۔
قولہ(والتوبۃ)ای تجدید الاسلام-قولہ (وتجدید النکاح)اَی اِحتِیَاطًا کَمَا فی الفصول العمادیۃ۔
وَزَادَ فِیہَا قِسمًا ثَالِثًا-فَقَالَ:وما کان خطأ من الالفاظ ولایوجب الکفر فقائلہ یقرّ علٰی حَالِہ ولایومر بتجدید النکاح-ولکن یومر بالاستغفار والرجوع من ذلک)(ردالمحتار جلدچہارم:ص432)
توضیح: (وزاد فیہا قسما ثالثا)سے مراد یہ ہے کہ ”فصول عمادیہ“ میں کفر کی ایک تیسری قسم بیان کی گئی ہے۔ تیسری قسم یہ ہے کہ غلطی سے کفریہ کلام زبان پر جاری ہوجائے تو کفر کا حکم عائد نہیں ہوگا،لیکن توبہ واستغفار اوراس کفریہ کلام سے رجوع کا حکم ہوگا۔
(2)قال اخی یوسف الرومی الحنفی:(وفی الفاظٍ تَکَلَّمَ بِہَا خَطَاءً نَحوَ اِن اَرَادَ اَن یَقُولَ:لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ فَجَرٰی عَلٰی لِسَانِہ اَنَّ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ-اَو جَرٰی بَدلَ شَکَرتُ”کَفَرتُ“ لَا یَکفُرُ فِیہِ قَطعًا فَضلًا عن لزوم النکاح-لکن یؤمر بالاستغفار والرجوع)(ہدیۃ المہدیین:ص15)
(3)قال الشیخ عبد الرحمن بن محمد بن سلیمان اَفَندِی:(لکن فی الدرر:وَاِن لَم یَعتَقِد اَولَم یَعلَم اَنَّہَا لَفظَۃُ الکُفرِ وَلٰکِن اَتٰی بِہَا عَن اِختِیَارٍ -فَقَد کَفَرَ عند عامۃ العلماء ولا یعذر بالجہل-وَاِن لَم یقصد فی ذلک بِاَن اَرَادَ اَن یَتَلَفَّظَ بِلَفظٍ اٰخَرَ فَجَرٰی عَلٰی لِسَانِہ لَفظُ الکُفرِ فَلَا یَکفُرُ)
(مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر: ص688)
(4)قال الشیخ عبد الرحمن بن محمد بن سلیمان اَفَندِی:(وَمَا کَانَ خَطَاءً من الالفاظ لَا یُوجِبُ الکُفرَ فَقَاءِلُہ مُومِنٌ عَلٰی حَالِہ لایومر بتجدید النکاح-ولکن یومربالاستغفار والرجوع عن ذلک)
(مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر: ص688)
توضیح:منقولہ بالاعبارات میں بتایا گیا کہ غلطی سے کفریہ کلام زبان سے نکل جائے تو کفر کا حکم نہیں ہوگا۔جب کفرکا حکم نہیں تو تجدید ایمان اورتجدید نکاح کا حکم نہیں۔صرف توبہ کا حکم دیا جائے گا اور اس کفریہ کلام سے رجوع کا حکم دیا جائے گا۔
کفر احتمالی میں توبہ کا حکم
مذکورہ بالا تیسری قسم ہی کی طرح ایک قسم کفر احتمالی ہے۔ اس میں کفر کااحتمال ضعیف ومرجوح ہوتاہے،لیکن چوں کہ وہاں عدم کفر کا قوی وراجح احتمال ہوتا ہے،لہٰذا وہاں کفر کا حکم نہیں دیا جاتا ہے۔ کبھی حرمت وعدم جواز کا حکم دیا جاتا ہے۔ کبھی خلاف اولیٰ وغیر ہ کا حکم دیا جاتا ہے۔احتمال کفر جس قدر کمزور ہوتا ہے،اسی قدر حکم میں تخفیف ہوتی ہے۔
(1)قال الحصکفی:(لا یفتی بتکفیر مسلم کان فی کفرہ خلاف ولو روایۃ ضعیفۃ-ثم ہوکبیرۃ لوعامدا مختارا عالما بالحرمۃ-لا جاہلا او مکرہا او ناسیا فتلزمہ التوبۃ)(الدرالمختار:جلد اول:ص321-المکتبۃ الشاملہ)
توضیح:کوئی ایسا احتمالی کفر ہے جس کے کفر ہونے میں فقہا کے درمیان ہے توایسا احتمالی کفریہ کلام کہنا حرام وناجائز ہے۔اگر کسی کوایسے مختلف فیہ کفریہ کلام کی حرمت کا علم ہے، اس کے باوجودوہ اپنے قصد واختیار کے ساتھ اس کفریہ کلام کوکہا تو یہ گناہ کبیرہ ہے،اوراسے توبہ کا حکم دیا جائے گا۔اگر لاعلمی کی حالت یا جبرواکراہ کی حالت میں یا بھول کر ایسا کلام کہا تو توبہ کا حکم نہیں۔
کفر احتمالی کی ایک قسم یہ ہے کہ کلام میں کفرکا احتمال مرجوح ہو،اورایسا کلام کہنا ناجائز وگناہ ہوتو اس کے قائل پر حکم کفرعائد نہیں ہوگا۔ قائل کو صرف توبہ کاحکم دیا جائے گا۔ تجدید ایمان وتجدیدنکاح کاحکم نہیں۔
اگر احتمال کفر ایسا سخت مرجوح وشدید ضعیف ہوکہ حرمت وعدم جواز کاحکم نہ ہو، گناہ بھی نہ ہوتو یہاں توبہ کا حکم نہیں،لیکن اس سے احتراز کا حکم دیا جائے گا۔ اس سے متعلق فتاویٰ رضویہ کے چند سوالات وجوابات مندرجہ ذیل ہیں۔
(1)سوال:
زید نے ایک تصنیف کی ہے،جس کے شروع میں عربی عبارت اس طرح لکھا ہے:
”بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم:الٰہنا محمد وہومعبود جل شانہ وعز برہانہ ورسولنا محمد وہومحمود صلی اللّٰہ علیہ وسلم“:
ان الفاظ کی کوئی تاویل ہو سکتی ہے،یا نہیں۔اگر نہیں توایسے لکھنے والے پر شرعا کیا حکم ہے؟ اوراس سے میل جول رکھنا اوراس کے پیچھے نماز پڑھنا اورایسے اعتقاد والے سے نکاح وغیرہ پڑھوانا شرعاً کیساہے؟بینوا توجروا۔جواب مع عبارات تحریر فرمائیں۔
جواب:ہمارے ائمہ کرام نے حکم دیا ہے کہ اگر کسی کلام میں ننانوے احتمال کفر کے ہوں اور ایک اسلام کا تو واجب ہے کہ اسلام پر محمول کیا جائے،جب تک اس کا خلاف ثابت نہ ہو۔پہلے جملہ میں محمد بفتح میم کیوں پڑھا جائے؟محمدبکسر میم کہا جائے،یعنی حضور سید عالم صلی اللہ تعاعلیہ وسلم محمد ہیں: صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم، بار بار بکثرت حمد وثنا کیے گئے اور ان کا رب عزوجل ان کا محمد ہے،باربار بکثرت ان کی مدح وتعریف فرمانے والا۔یہ معنی صحیح ہوگئے اورلفظ بالکل کفر سے نکل گیااور اگر بفتح میم ہی پڑھیں اورلغوی معنی مراد لیں،یعنی ہمارا رب عزوجل باربار بکثرت حمد کیا گیا ہے۔جب بھی عند اللہ کفر نہ ہوگا،مگر اب صرف نیت کافرق ہوگا۔بہر حال ناجائز ہونے میں شبہہ نہیں۔
ردالمحتار میں ہے:”مجرد ایہام المعنی المحال کاف فی المنع“۔مصنف کو توبہ چاہئے، اوراسے متنبہ کیا جائے۔اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں،مگر یہ کہ کوئی حالت خاصہ داعی ہو: واللہ تعالیٰ اعلم (فتاویٰ رضویہ جلد ششم: ص115-114-رضا اکیڈمی ممبئ)
(2)سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ:
ہمارے سرور عالم کا رتبہ کوئی جانے خدا سے ملنا چاہے تومحمد کوخدا جانے
یہ شعر عام طورپر حضور سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محفل میلاد شریف میں پڑھنا درست ہے یانہیں؟
الجواب: اس شعر کا ظاہر صریح کفر ہے،اور اس کا پڑھنا حرام ہے،اور جو اس کے ظاہر مضمون کا معتقد ہو،یقینا کافر ہے۔ہاں، اگر بقرینہ مصرعہ اولیٰ یہ تاویل کرے کہ خدا سے ملنا چاہے تویوں سمجھے کہ محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مرتبہ کو اللہ ہی جانتا ہے تو یہ معنی صحیح ہیں، مگر ایسا موہم لفظ بولنا جائز نہیں۔رد المحتار میں ہے:مجر د ایہام المعنی المحال کاف فی المنع:واللہ تعالیٰ اعلم (فتاویٰ رضویہ: جلدششم: ص 208-رضا اکیڈمی ممبئ)
(3)اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری قدس سرہ العزیز سے سوال ہواکہ اللہ تعالیٰ کو حاضروناظر کہنا کیسا ہے؟آپ نے جواب میں تحریر فرمایا:
”اللہ عزوجل شہید وبصیر ہے۔اسے حاضر وناظر نہ کہنا چاہئے،یہاں تک کہ بعض علما نے اس کی تکفیر کا خیال فرمایا اوراکابر کو اس کی نفی کی حاجت ہوئی۔مجموعہ ابن وہبان میں ہے: (ویا حاضر ویا ناظرلیس بکفر) جو ایسا کہتا ہے،خطاکرتا ہے،بچنا چاہئے:واللہ اعلم‘‘۔
(فتاویٰ رضویہ: جلد ششم: ص 157-رضا اکیڈمی ممبئ)
توضیح:در مختارکی عبارت میں ایسے محتمل کلام کا حکم بیان کیا گیا،جس کے کفر ہونے میں فقہاکااختلاف ہو۔ایسا کلام کرنے کو گناہ کبیرہ بتایا گیا اور توبہ کا حکم دیا گیا۔فقہا کے اختلاف کے سبب ایسے محتمل کلام پرگر چہ حکم کفر نہیں،لیکن ایسا کلام کہنا گناہ کبیرہ ہے۔ عہد حاضر میں دیکھا جاتا ہے کہ کسی کلام کی کوئی تاویل مل گئی،بس ملزم کو بری الذمہ قراردے دیا جاتا ہے، حالاں کہ وہاں اگر حرمت وعدم جواز کا حکم نافذہوتا ہے توقائل کوتوبہ کا حکم دینا ہو گا۔
فتاویٰ رضویہ کے منقولہ بالا فتاویٰ میں ایسے محتمل کلام کا حکم بیان کیا گیا ہے جس میں احتمال کفر مر جوح ہو، اور عدم کفرکا احتمال راجح ہو۔پہلے دوفتویٰ میں محتمل کلام پر عدم جواز کا حکم دیا گیا،اورقائل کو توبہ کا حکم دیا گیا،کیوں کہ احتمال کفرگرچہ مرجوح وضعیف تھا،لیکن شدید مرجوح وشدیدضعیف نہیں تھا،لہٰذا ایساکلام کہنا ناجائز وگناہ ہے،اور گناہ سے توبہ کا حکم ہے۔
تیسرے فتویٰ میں صرف احتراز کا حکم ہے۔توبہ کا حکم نہیں، کیوں کہ احتمال کفر شدید مرجوح وشدیدضعیف ہے، پس ایسا کلام حرام وناجائز اورگناہ نہیں۔ جب گناہ نہیں تو توبہ کا حکم نہیں دیا گیا۔بعض امور شرعاًناپسندیدہ ہوتے ہیں،لیکن گناہ نہیں۔ان سے پرہیز کا حکم ہے۔اب ذیل میں ان کلمات کا حکم مرقوم ہے،جس میں کفروعدم کفر کا احتمال مساوی ہو۔
محتمل الفاظ جن میں احتمالات مساوی ہوں
کفر کلامی,کفر متعین کا نام ہے۔اس میں متعدد احتمالات نہیں ہوتے,بلکہ ایک متعین معنی ہوتا ہے۔کفر فقہی قطعی میں احتمال بعید ہوتا ہے۔احتمال بعید کو فقہا قبول نہیں کرتے۔اور حکم کفر جاری کرتے ہیں۔کفر کلامی کی طرح یہ بھی فقہا کے یہاں کفر کفر قطعی التزامی ہے۔
ظنی کلام میں احتمال راجح واحتمال مرجوح ہوتا ہے۔احتمال راجح کو ظنی کہا جاتا ہے,اور احتمال مرجوح کو وہمی۔اسی طرح کوئی کلام محتمل ہوتا ہے۔اس میں متعدد معانی کااحتمال ہوتا ہے۔جیسے مشترک لفظ متعدد معانی کے درمیان مشترک ہوتا ہے۔
جس کلام میں کفری احتمال اورغیر کفری احتمال مساوی ہو،اس کا حکم یہ ہے کہ مفتی اس کوغیر کفری معنی پر محمول کرے۔ اگر قائل کی نیت بھی غیر کفری معنی ہے تو وہ مومن ہے،اوراگر قائل کی نیت کفری معنی ہے تووہ عند اللہ کافر ہے،گرچہ مفتی نے اس کے کفر کا فتویٰ نہیں دیا۔ ایسی صورت میں لازم ہے کہ قائل توبہ وتجدید ایمان وتجدید نکاح کرکے عنداللہ بری الذمہ ہوجائے۔مفتی کے عدم کفر کا فتویٰ اس کے حق میں مفید نہیں۔مفتی کا حکم مندرجہ ذیل ہے۔
(1)قال الحصکفی:((و)اعلم انہ(لایفتی بکفر مسلمٍ اَمکَنَ حَملُ کَلَامِہ عَلٰی مَحمَلٍ حَسَنٍ اَو کَانَ فی کفرہ خلاف ولو)کان ذلک(روایۃً ضعیفۃً)کما حررہ فی البحر وعزاہ فی الاشباہ الی الصغرٰی وفی الدرر وغیرہا-اذا کان فی المسئلۃ وجوہٌ توجب الکفر وَوَاحِدٌ یَمنَعُہ-فَعَلَی المُفتِی المیل لِمَا یَمنَعُہ-ثم لَونِیَّتُہ ذلک فَمُسلِمٌ وَاِلَّا لَم یَنفَعہ حَملُ المُفِتی عَلٰی خِلَافِہ)(الدرالمختار: جلد چہارم:ص414)
(2)قال الشامی فی توضیح العبارۃ المذکورۃ:(قولہ(ولوروایۃً ضعیفۃً)قال الخیر الرملی:اقول:ولوکانت الروایۃُ لِغَیرِ اَہلِ مَذہَبِنَا-ویدل علٰی ذلک اشتراط کون ما یُوجِب الکُفرَ مُجمَعًا عَلَیہِ-الخ قولہ(کَمَا حَرَّرَہ فی البحر)قَدَّمنَا عِبَارَتَہ قبیل قولہ-وشرائط صحتہا-قولہ(وجوہٌ)ای احتمالاتٌ کَمَا مَرَّ فی عبارۃ البحر عن التتار خانیۃ-اَنَّہ لَا یُکَفَّرُ بِالمُحتَمِلِ)
(ردالمحتار:جلدچہارم:ص415-مکتبہ شاملہ)
(3)قال فی الفتاوی الہندیۃ:(اذا کان فی المسئلۃ وجوہٌ توجب الکفر ووجہٌ واحدٌ یمنع- فَعَلَی المفتی اَن یَمیل الیٰ ذٰلک الوجہ-کذا فی الخلاصۃ-فی البزازیۃ،الا اذا صَرَّحَ بارادۃٍ تُوجِبُ الکُفرَ فَلَا یَنفَعُہُ التَّاویل حِینَءِذٍ-کذا فی البحرالرائق)
(فتاویٰ عالمگیری:جلد دوم:ص283-البحرالرائق جلد پنجم:ص210)
(4)قال الفقیہ الحنفی ابن عابدین الشامی نَاقِلًا عن البحرالرائق:
(وفی الخلاصۃ وغیرھا-اذا کان فی المسئلۃ وجوہٌ توجب التکفیر ووجہٌ واحدٌ یمنعہ-فعلی المفتی ان یمیل الی الوجہ الذی یمنع التکفیر تَحسِینًا لِلظَّنِّ بِالمُسلِمِ-زاد فی البزازیۃ-اِلَّا اِذَا صَرَّحَ بِاِرَادَۃِ مُوجِبِ الکُفرِ-فلا ینفعہ التاویل حٍٍ-و فی التتارخانیۃ-لَا یَکفُرُ بِالمُحتَمِلِ-لان الکفرَ نھایۃ فی العقوبۃ فیستدعی نھایۃً فی الجنایۃ-ومع الاحتمال لا نھایۃ)(ردالمحتار: جلدچہارم:ص 408-البحرالرائق: جلدپنجم:ص210)
(5)قال الملاعلی القاری:(قَد ذَ کَرُوا اَنَّ المسئلۃ المتعلقۃ بالکفر اِذَا کَانَ لَھَا تِسعٌ وَتِسعُونَ اِحتِمَالًا لِلکُفرِ واحتمالٌ واحدٌ فی نفیہ-فَالاَولٰی لِلمُفتِی والقاضی ان یعمل بالاحتمال النافی)(شرح الفقہ الاکبر: ص199)
توضیح:منقولہ بالا عبارتوں میں بتایا گیا کہ محتمل الفاظ میں مفتی عدم تکفیر کی طرف مائل ہو،جب کفروعدم کفر کا احتمال مساوی درجے کا ہو۔اگرقائل صراحت کردے کہ ہماری مراد کفری معنی ہے تو مفتی نے جس احتمال کے سبب عدم کفر کافتویٰ دیا ہے،وہ فتویٰ قائل کے حق میں مفید نہیں ہوگا۔اس پرلازم ہے کہ خود توبہ وتجدیدایمان وتجدید نکاح کرلے۔
محتمل الفاظ میں قائل سے سوال کا حکم
جب مفتی سے کسی محتمل لفظ کے بارے میں سوال ہو، جس میں کفر وعدم کفر دونوں کا احتمال مساوی ہوتو فتویٰ دینے سے قبل قائل کی مراد دریافت کرلے۔قائل جواپنی مراد بتائے، اسی کے اعتبارسے مفتی شرعی حکم بیان فرمائے۔
اگر قائل کی مراد معلوم نہ ہو سکے تو اپنی جانب سے عدم کفر کا حکم دے۔جس کا ذکر ماقبل کی بحث میں گزرا۔
(1)قال الہیتمی:(ومنہا مَا صَرَّحَ بِہٖ اَءِمَّتُنَا کالرافعی فی”العزیز“ والنووی فی”الروضۃ والمجموع“ وغیرہما-مِن اَنَّ المُفتِیَ اذا سُءِلَ عَن لَفظٍ یَحتَمِلُ الکُفرَ وَغَیرَہٗ-لَا یَقُول ہو مہدر الدم اومباحہ اویقتل او نحو ذلک-بل یقول:یُسءَلُ عَن مُرَادِہٖ-فَاِن فَسَّرَہٗ بِشَیءٍ،عُمِلَ بِہٖ)
(الفتاوی الحدیثیہ:ص38-دارالفکربیروت)
(2)قال الہیتمی:(سُءِلَ نَفَعَ اللّٰہُ بِہٖ-بِمَا لَفظُہٗ:
مَن قَالَ اِنَّ المؤمن یعلم الغیب-ہل یکفر لقولہ تعالٰی(قُل لَا یَعلَمُ مَن فِی السَّمٰوَاتِ وَالاَرضِ الغَیبَ اِلَّا اللّٰہُ)وقولہ(عَالِمُ الغَیبِ فَلَایُظہِرَ عَلٰی غَیبِہٖ اَحَدًا)-اَو یُستَفصَلُ لِجَوَازِ العِلمِ بِجُزءِیَّاتٍ مِنَ الغَیبِ۔
فَاَجَابَ بِقَولہ رحمہ اللّٰہُ وَنَفَعَنَا بِہٖ-آمین:
لَا یُطلَقُ القول بکفرہ- لِاِحتِمَالِ کَلَامِہٖ-وَمَن تَکَلَّمَ بِمَا یَحتَمِلُ الکُفرَ وَغَیرَہٗ-وَجَبَ اِستِفصَالُہٗ کما فی الروضۃ وغیرہا۔
ثم قال الرافعی:ینبغی اذا نُقِلَ عَن اَحَدٍ لَفظٌ ظَاہِرُہُ الکُفرُ،اَن یُتَاَمَّلَ وَیُمعَنَ النَّظرُ فیہ-فَاِن اِحتَمَلَ مَا یُخرِجُ اللَّفظُ عَن ظاہرہ-مِن اِرَادَۃِ تَخصِیصٍ اَومَجَازٍ اَو نَحوِہِمَا-سُءِلَ اللَّافِظُ عَن مُرَادِہ-وَاِن کَانَ الاَصلُ فِی الکَلَامِ الحَقِیقَۃُ وَالعُمُومُ وَعَدَمُ الاِضمَارِ-لِاَنَّ الضَّرُورَۃَ مَاسَّۃٌ اِلَی الاِحتِیَاطِ فِی ہٰذَا الاَمرِ-وَاللَّفظُ مُحتَمِلٌ-فَاِن ذَکَرَمَا ینفی عنہ الکفر مما یَحتَمِلُہُ اللَّفظُ،تُرِکَ-وَاِن لَم یَحتَمِلُ اللَّفظُ خِلَافَ ظَاہِرِہٖ-اَوذَکَرَغَیرَمَا یَحتَمِلُ -اَولَم یَذکُر شَیءًا اُستُتِیبَ-فَاِن تَابَ قُبِلَت تَوبَتُہٗ-وَاِلَّا فَاِن کَانَ مَدلُولُ لَفظِہٖ کُفرًا مُجمَعًا عَلَیہِ -حُکِمَ بِرِدَّتِہٖ فَیُقتَلُ اِن لَم یَتُب۔
وان کان فی محل الخلاف-نَظَرَ فی الراجح من الادلۃ اِن تَاَہَّلَ- وَاِلَّا اَخَذَ بالراجح عند اکثر المحققین من اہل النظر-فَاِن تَعَادَلَ الخِلَافُ -اَخَذَ بِالاَحوَطِ-وہوعدم التکفیر-بل الذی امیل الیہ اذا اُختُلِفَ فِی التَّکفِیرِ،وَقفُ حَالِہٖ وَتَرکُ الامر فیہ الی اللّٰہ تَعَالٰی-انتہٰی کلامہ
وقولہ:وان کان فی محل الخلاف الخ محلہ فی غیر قاض مقلد رُفِعَ الیہ امرہ-وَاِلَّا لَزِمَہُ الحُکمُ بِمَا یَقتَضِیہِ مَذہَبُہٗ ان انحصر فیہ-سواء وافق الاحتیاطَ اَم لَا۔
وَمَا اَشَارَ اِلَیہِ الرَّافِعِیُّ مِنَ الاِحتِیَاطِ فی اراقۃ الدماء ما امکن، وَجِیہٌ- فقد قال حجۃ الاسلام الغزالی-تَرکُ قتل الف نفس استحقوا القتلَ، اَہوَنُ من سفک محجم من دم مسلم بغیر حق-ومتٰی اُستُفصِلَ فَقَالَ: اَرَدتُ بقولی-”المؤمن یعلم الغیب“-اَنَّ بَعضَ الاَولِیَاءِ قَد یُعَلِّمُہُ اللّٰہُ بِبَعضِ المُغِیبَاتِ-قُبِلَ مِنہُ ذٰلِکَ-لانہ جائزٌ عَقلًا وَوَاقِعٌ نَقلًا-اذ ہو من جملۃ الکرامات الخارجۃ عن الحصر علٰی ممر الاعصار-فبعضہم یعلمہ بخطاب-و بعضہم یعلمہ بکشف حجاب-وبعضہم یکشف لہ عن اللوح المحفوظ حَتّٰی یَرَاہُ)(الفتاوی الحدیثیہ: ص222-مکتبہ شاملہ)
توضیح:کبھی ایک کلام میں متعدد معانی کا احتمال ہوتا ہے۔بعض معانی کفریہ ہوتے ہیں۔بعض غیرکفریہ۔
جب کلام متعدد معانی کا احتمال رکھے۔بعض معانی کفریہ ہوں،اوربعض معانی غیر کفریہ۔احتمالات مساوی ہون۔راجح ومرجوح نہ ہوں۔ایسی صورت میں حکم کی بنیاد قائل کی نیت پر ہوتی ہے،لہٰذا فتویٰ سے قبل قائل کی مراد دریافت کی جائے گی۔کلام میں متعدد احتمال ہونے کی چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں۔
(1)قال الھیتمی:(وما ذکرہ فی-اَنصِفِ اللّٰہَ یُنصِفُکَ یَومَ القِیَامَۃِ- من انہ کفرٌ-فیہ نظرٌ ظاھرٌ-لانہ ان اراد بہ-ان اطعتہ اَثَابَکَ فَوَاضحٌ انہ غیرکفر-وان اراد حقیقۃَ الانصاف المشعرۃ بالاحتیاج اِتَّجَہَ الکُفرُ-لان من اعتقد ان اللّٰہَ یَحتَاجُ الٰی اَحَدٍ من خلقہ فَلَا شَکَّ فی کفرہ-وَاِن اَطلَقَ -تَرَدَّدَ النظر فیہ-والظاھرانہ غیرکفر لان الانصاف لایستلزم ذلک)
(الاعلام بقواطع الاسلام:ص367)
(2)قال الھیتمی:(وَقَد ذَ کَرَالنووی عَفَا اللّٰہُ عَنہُ فی شرح المھذب -انہ یقال:قَصَدَ اللّٰہُ کَذَا-بِمَعنٰی اَرَاد َ-فَمَن قَالَ:لَیسَ لَہ نِیَّۃٌ اَی قَصدٌ-فَاِن اَرَادَ اَنَّہ لَیسَ لَہ قَصدٌ کَقَصدِنَا فَوَاضِحٌ-وکذا اِن اَطلَقَ-اَو اَرَادَ اَنَّہٗ لَا اِرَادَۃَ لَہٗ اَصلاً-فَاِن اَرَادَ المَعنَی الَّذِی یَقُولُہُ المُعتَزِلَۃِ فَلَا کُفرَاَیضًا-اَو اَرَادَ سَلبَھَا مُطلَقًا،لَابالمعنی الذی یقولنہ فھوکُفرٌ) (الاعلام بقواطع الاسلام: ص367)
توضح:جب رب تعالیٰ سے من کل الوجوہ ارادہ کا سلب کردے تویہ جبر مطلق ہے۔یہ فلاسفہ کا عقیدہ ہے۔فلاسفہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فاعل بالایجاب ہے،یعنی فاعل مختار نہیں کہ اپنی مرضی سے جوچاہے،کرے۔یہ عقیدہ کفر یہ ہے۔فلسفہ کی کتابوں میں فن الٰہیات میں اس کا تفصیلی ذکر موجود ہوتا ہے۔
(3)قال الامام فخرالد ین حسن بن منصورالاوزجندی المعروف بقاضی خاں:(رجل قال لغیرہ”صَلِّ المَکتُوبَۃَ“ فقال:”لا اصلیہا الیوم“- اختلفوا فیہ-ذکر الناطفی عن محمد رحمہما اللّٰہ تَعَالٰی انہ قال:قول الرجل:”لااصلی“ یحتمل وجوہًا اربعۃ۔
احدہا:لا اصلی،فقد صلیتہا-والثانی:لا اصلی بقولک،فَقَد اَمَرَنِی مَن ہُوَ خَیرٌ مِنکَ-والثالث: لا اصلی فسقا ومجانۃ-ففی ہذہ الوجوہ الثلث لا یکفر-والرابع:لا اصلی-فلیس تجب عَلَیَّ الصَّلٰوۃُ وَلَم اُومَر بِہَا یعنی جحودہا،یصیرکافرًا-قال الناطفی رحمہ اللّٰہ تعالٰی:فعلٰی ہذا اذا اطلق،وقال:”لا اصلی“لا یکفر،لان ہذا اللفظ محتمل)
(فتاوٰی قاضی خاں: جلدسوم:ص573-داراحیاء التراث العربی بیروت)
توضیح:منقولہ بالاعبارتوں میں بیان کیا گیا کہ بعض الفاظ وکلمات میں تین،چار معانی کا احتمال ہوتا ہے۔ ایسے محتمل الفاظ میں مفتی کو کامل تحقیق کے بعد ہی حکم نافذکرنا ہے۔