از قلم : محمد آفتاب رضا قمری جھارکھنڈ
وہاں رحمتوں کی مطر ہو رہی ہے
نبی کی بڑائی جدھر ہو رہی ہے
پڑھی نعت کس نے سنی نعت کس نے
شہ دیں کو سب کی خبر ہو رہی ہے
بلا لیجئے مجھ کو طیبہ میں آقا
مری زندگی مختصر ہو رہی ہے
شہنشاہ بطحا کے لطف و کرم سے
شب زندگی کی سحر ہو رہی ہے
میں رٹتا ہوں اکثر جو اسم علی کو
مری آل اس سے نڈر ہو رہی ہے
نہیں میں پیوں گا تری چائے نجدی
کمائ بھلے مختصر ہو رہی ہے
مرے واسطے پیارے آقا کی مدحت
اے قمری سدا چارہ گر ہو رہی ہے