رشحات قلم : سید اولاد رسول قدسی مصباحی
زیست کی راہوں میں میری اک شجررکھا گیا
اُس کو شاخوں سے مزین بے ثمر رکھا گیا
کچھ نہ کچھ کرلیتے ہم بھی احتیاطی انتظام
آنے والے موسموں سے بے خبر رکھا گیا
شب کی ظلمت کررہی ہے دن سےیہ چبھتا سوال
شام کے کندھے پہ کیوں بار سحر رکھا گیا
کھل اٹھیں باچھیں فضاؤں کی نشاط و کیف سے
بادلوں کے سر پہ جب تاج قمر رکھا گیا
یوں ملی سوغات میری الفتِ بے لوث کو
میرے ٹوٹے دل کے آُنگن میں حجر رکھا گیا
بلبلا کر رو پڑی غمگین فن کی آبرو
بے ہنر کی چھت پہ مینارِ ہنر رکھا گیا
ایسے خوش بختوں کا اب ملتا نہیں ہم کو سراغ
جن کے ہونٹوں پر دعاؤں کا اثر رکھا گیا
اسلحوں سے لیس تھا راحت کی فوجوں کا حصار
کیسے کہ دوں قدسی غم کو بے ضرر رکھا گیا