ازقلم: احمد فریدی
مولانا ابوالکلام آزاد فرما گئے کہ دنیا دس ہزار سال بھی چلے تو بھی دو چیزیں ختم نہ ہوں گی:
۱: ہندو قوم کی تنگ نظری
۲: مسلمانوں کی اپنے قائدین سے بدگمانی…
جب جب امت اپنے قائدین / علماء / امت کے چنندہ لوگ جو کچھ کرسکتے تھے ۔ان سے بدگمان ہوئی ۔ان کی ہی ٹانگ کھینچی تبھی اس پر ایسے ذلیل، ظالم لوگ مسلّط ہوئے ان کی مثال رہتی دنیا تک یاد رہےگی ۔کوئی مائی کا لال مسلمانوں کو ایک جھنڈے کے نیچے جمع نہیں کرسکتا ۔کیونکہ مسلمان وہ قوم ہے جو اپنے خیر خواہوں کو دشمن کا ایجنٹ سمجھتی ہے۔ان کی ٹانگ کھینچ کر دوسروں کے تَلوے چاٹتی ہے۔
یہی مسلم قوم ہے جس نے وقت کے مجاہدِ اعظم، صلیبیوں کی نیندیں حرام کرنے والے، قبلہ اوّل کو آزاد کرانے والے، اس سے سسک سسک کر رونے والے فرشتہ صفت انسان «سلطان صلاح الدّین ایّوبی» کو صلیبی ایجنٹ کہا ۔محمود غزنوی کو لٹیرا اور ڈاکو کہا ۔ نظر دوڑاتے آئیے ۔سب قائدین و مجاہدین کو یہی تمغہ ملا ہے کہ فلاں کا ایجنٹ ہے۔آج کسی نہ کسی شکل میں مسلم قیادت کی ڈوبتی نیّا کو پار لگانے والے، مسلمانوں میں اپنی قیادت کا جذبہ بیدار کرنے «اسدّالدین اویسی» کو یہی مسلمان «بی جے پی» کا ایجنٹ کہتے ہیں ۔وہ آدمی جو بآسانی نوابوں کی زندگی گذار رہا ہے۔اور گذار سکتا ہے۔جس کے آباء و اجداد اتنی وراثت چھوڑ گئے جو شاہوں کی زندگی کاٹ سکتا ہے ۔اس کو کیا ضرورت کہ چائے و اخبار بیچنے والے کے ہاتھوں ٹکوں کے دام بِکے ۔دراصل یہ مسلمان نہیں سدھرنے والے…
یہ تاریخ ہے کہ جب جب مسلمان ٹکڑوں میں بٹے ہیں ۔ٹولیوں میں رہنے لگے ۔ڈیڑھ اینٹ مسجد بنانے لگے ۔ علماء و قائدین کو گالیاں دینے لگے ۔تبھی ان پر ظالم لوگ مسلّط کئے گئے ۔ «حجاّج بن یوسف» کہا کرتا تھا:
"”لوگوں ۔بری حرکتوں سے باز آجاؤ ۔مان جاؤ ۔میں تم پر خدا کی طرف سے مسلّط کیا گیا ہوں ۔ یہ حقیقت ہے کہ حجّاج امت پر اس وقت مسلّط ہوا جب امت ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی تھی ۔مطلق العنان حکمراں سر ابھارنے لگے۔حتی کہ خلیفہ «عبدالملک» بھی اپنی فوج سے پریشان ہوجاتا ہے۔کیونکہ وہ بھی من مانی کرنے لگی تھی ۔دشمانانِ اسلام اسلامی حکومت کی سرحدوں کو تنگ کرتے اور ان پر قبضہ کرتے جارہے تھے ۔سو امّت کو یکجا کرنے کے لئے «حجاج بن یوسف» خدائی عذاب بن کر مسلّط ہوا (یہ بحث بہت طویل ہے۔حجّاج پر پھر کبھی)
چنگیز خان، ہلاکو خان وغیرہ یہ سب امت پر مسلّط ہوئے ۔اس وقت کے حالات کو پڑھئے ۔ایسے ہی ہندوستان کے مسلمانوں کا حال ہوگا ۔ابھی یہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں مست ہیں ۔جب ان پر خدائی لاٹھی چارج ہوگی ۔تب کھل کر سب کچھ سامنے ہوگا ۔جو قائدین ایمان فروش ہیں ۔جب وہ اپنی قیمت وصول کرنے «میرصادق» کی طرح دربار میں جائیں گے ۔تو ان کو وہی انعام ملےگا ۔جو میرصادق کو ملا۔ ٹیپو سلطان کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے والے «سرنگاپٹنم» کی دیوار گراکر دشمنوں کو داخل کرنے والے "میرصادق کا کنبہ” جب انگریز دربار میں اپنا انعام لینے پہونچا تو انگریزوں نے یہ کہ ان کے مردوں کے سر قلم کرادئے کہ "جب تم اپنوں کے نہ ہوئے تو ہمارے کیسے ہوگے” ۔اور عورتوں کی عصمت دری کی گئی…
۔ (واضح رہے کہ میرصادق بھاگتے ہوئے ٹیپو سلطان کے جانباز سپاہی "انور علی” کے ہاتھوں مارا گیا)
ہر غدّار کا یہی انجام ہوتا ہے۔آخر میں اس کو قتل کردیا جاتا ہے ۔یا یونہی سامانِ عبرت بناکر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جب تم اپنوں کے نہیں ہوسکے ۔تو ہمارے کیا بنوگے ۔
مانا کہ اویسی کی وجہ سے بی جے پی کو فائدہ ہوتا ہے۔تو بھئی جہاں اویسی یا مسلم قیادت سِرے سے ہے نہیں ۔وہاں کس سے فائدہ پہونچتا ہے۔وہاں کون جِتاتا ہے۔ان کو کبھی تم نے بُرا بھلا کہا ۔۔??!! دراصل تم ہوہی غلامی کے لائق ۔۔تمہارے ذہن غلام ہوچکے ہیں ۔تم ذہنی غلامی کے مریض ہو ۔سوچنے، سمجھنے کی قوّت بھی گنوا چکے ہو ۔
ایمانداری سے سوچیئے ۔اور جواب دیجئے ۔کہ آپ نے کانگریس کو پچھلے ستّر سالوں سے پالا، پوسا، بڑا کیا ۔قدآور بنایا ۔لیکن اس نے تم کو کیا دیا ۔۔??!!
بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر ہوا ۔جہاں ہوا ۔وہیں نہیں ۔بلکہ پورے ہند سے مسلمان چن چن کر اٹھائے گئے ۔اور اٹھانے والی آپ کی پیاری دُلاری محترمہ «کانگریس» تھی ۔
ملک کی تاریخ میں جتنے بھی کانڈ، حادثات، قتلِ عام، فسادات، مسلم کشی ہوئی ان میں چند ایک کو چھوڑ کر باقی سب کانگریس کے دورِ حکومت میں اسی کی شہ پر ہوئی ۔ہاشم پورہ معاملہ ہو ۔یا مرادآباد ۔ الغرض سب کے تار کانگریس ہی سے بھِڑتے ہيں ۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ «بھاجپا اور آر ایس ایس»کو جنم دینے والی، دودھ پلانے والے، تربیت کے مراحل سے گذارنے والی «کانگریس» ہی ہے۔اس پر جامعہ ملیہ کے پروفیسر کی کتاب بھی آچکی ہے۔ نام ہے «آر ایس ایس اور بی جے پی کی ماں کانگریس» پڑھئے ۔اور آنکھیں کھولئے…
بابری مسجد انہدام اس کے بعد ۲۰۱۹ء میں کورٹ کا فیصلہ پر سب سے زیادہ خوشی کانگریس دفتر میں منائی گئی ۔اور برجستہ کہا گیا کہ آج کانگریس کا خواب پورا ہوا… کیونکہ بابری مسجد کا تالا کھولنے والا، مورتیاں رکھوانے والا راجیو گاندھی تھا ۔سارے امور کانگریس کے دورِ حکومت میں ہوئے ۔بس بھاجپا نے تو پھل کھایا ۔مذہب کے نام بھِڑانے والی سیاست اپناکر اپنا الّو سیدھا کیا ۔۔
یوپی میں سماجوادی، مایاوتی وغیرہ کو سینچتے سینچتے کئی دہائیاں گذر گئیں ۔کیا ملا ۔وہی «اعظم خان» ہے جس نے اپنی پوری زندگی کھپا دی ۔پارٹی کو اوجِ ثریاّ پر لایا ۔کئی بار اقتدار میں آئی ۔اور آج اسے دیکھنے والا بھی کوئی نہیں ۔ «شہاب الدّین» کی لاش کو اہلِ خانہ کے حوالے کروانے کے لئے «تیجسوی اور اس کی پارٹی» آگے نہیں آئی ۔اپنے ہی کام آئے ۔اپنے اندر سیاست بیدار کیجئے ۔اپنی قیادت کو مضبوط کیجئے ۔اپنے اور غیروں کی پہچان کیجئے ۔
کہاوت ہے:
اپنا اپنا ہی ہوتا ہے۔اگر مارے تو بھی مارکر چھائیں میں ڈالتا ہے برخلاف دیگر کے۔
سوچئے ۔جہاں ستر سال غیروں کو اپنایا ۔کچھ ہی دن سہی ۔اپنوں پر ہی بھروسہ کیجئے ۔ جب تم پر بن آئےگی ۔تو اپنے ہی کام آئیں گے۔یہی آپ کے سامنے سینہ سپر ہوں گے ۔ ان کو سپورٹ کیجئے ۔آنے والا وقت کیسا کچھ ہو ۔معلوم نہیں ۔لیکن جہاں مسلم اکثریت ہے ۔وہاں وہاں اپنا نیتا ہونا چاہئے ۔ کیونکہ ہندو بُزدل ہوتا ہے۔یہ بِھیڑ میں یا ایسی جگہ حملہ کرتا ہے۔جہاں یہ اپنے اپنے کو سیف محسوس کرتا ہے۔مسلم آبادی کے اندر ہندو محفوظ ہے۔اگر مسلمان تکلیف بھی پہونچائے ۔تو دس حمایت میں کھڑے ہوجاتے ہیں ۔جبکہ ہندو علاقے میں چند مسلم گھر ہوں ۔پچاس سال سے رہ رہے ہوں۔اگر ملک کے دوسرے کونے میں لڑائی تو بدلہ اپنے پڑوس میں رہنے والے مسلم کنبہ پر اتارا جائےگا ۔یہی ہے «ہندو قوم کی تنگ نظری»۔
کل ملا کر کہنے کا مفہوم یہ ہے کہ مسلم اکثریتی جگہوں پر بالخصوص مسلم نیتا اقتدار میں ہوں ۔یہ ضروری ہے۔اور ملک کے موجودہ حالات نے یہ بات اچھی طرح سمجھا دی ہے۔مانا کہ وہ دوسری پارٹی سے ہو۔یا دوسروں کے ہاتھوں مجبور ہو۔لیکن جب بات مسلم پر آئےگی ۔جو اس سے بن پڑےگا ۔حمایت میں ضرور کرگذرےگا ۔ کھل کر نہیں تو پسِ پردہ تمہاری حمایت بھی کرےگا ۔وغیرہ وغیرہ ۔نیز یہی علاقے حالات کی سنگینی میں مسلم چھاؤنی کا کام دیں گے ۔
ہندو کوئی بھی قوم ہو ۔یادو ہو یا پنڈت ۔نیز نیچی ذات کے لوگ بھی ہو۔لیکن آپ کے خلاف ایک ہیں ۔گذشتہ دنوں سنا ہوگا کہ اکھلیش یادو جی یوپی الیکشن میں اتحاد کی بات کررہے تھے ۔نیز اشاروں میں «مجلس» سے اتحاد کی بات بھی کہی تھی ۔ایسے میں کسی نے ڈبیٹ میں سماجوادی نیتا سے سوال کیا:
اگر مجلس کی مدد سے تمہاری پارٹی اقتدار میں آئی تو تم کو مسلمان نائب وزیر اعلیٰ بنانا پڑےگا ۔
یادو نے جو جواب دیا وہ سننے کے قابل ہے۔ جو مسلمان دوغلا اور منافق قسم کا ہوگا ۔وہی اسے جھٹلائےگا ۔ کچھ اس طرح کہا: «کہ ہم ملاّؤں کو وزیر بنائیں گے وغیرہ »۔
ارے مسلمانوں ۔سوچو ۔جو یادو صرف آٹھ فیصد ہیں ۔ان کے تیور اور ان کی سوچ آپ کے بارے میں ایسی ہے۔ شہاب الدین کے معاملے میں ان کی کمینگی کھل کر سامنے آگئی ۔وہ پچیس فیصد مسلمانوں کے سیاست میں آنے، نیتا بننے سے کتنے نالاں ہیں ۔وہ آپ کو کیڑے مکوڑے کی شکل ميں دیکھنا ہی پسند کرتے ہیں ۔ «اعظم خان» کو خوب یوز کیا اور اب ٹیشو پیپر کی طرح پھینک دیا ۔سبق دیکھئے ۔اپنوں کا ساتھ دیجئے ۔اپنی پارٹی کو سپورٹ کیجئے ۔
کاش کہ ایسا ہوجائے
گذشتہ دنوں جب اعظم خان بیمار تھے ۔اب بھی ہیں ۔اس وقت خبر گردش کرنے لگی کہ "اویسی صاحب” اعظم خان سے ملاقات کرنے جارہے ہیں ۔تو «یادو پریوار» میں کھلبلی مچ گئی ۔حالانکہ یہ لوگ اعظم خان کو دیکھنے تک نہ گئے تھے ۔اگر اعظم خان گذشتہ حالات کو مدّنظر رکھتے ہوئے اسدالدّین اویسی سے مل جائے تو مسلمانوں کو استعمال کرنے والے لوگوں کا نشہ اتر جائےگا ۔یہ صرف آپ سے ووٹ چاہتے ہیں ۔باقی ان کی نظر میں آپ کچھ بھی نہیں ۔ جسے کچھ کہتے ہیں ۔وہ بھی نہیں ۔یاد رکھئے ۔ابھی تک یہی ہوا ہے جو اسپتال پہونچا وہ زندہ واپس نہیں آنے دیا گیا ۔اللہ کرے کہ «اعظم خان» واپس آئے اور اب کی بار "اویسی ” کے ساتھ مل کر کام کرے ۔تو نتائج کلّی طور پر نہ سہی لیکن دیکھنے لائق ہوں گے۔اور دشمنوں کو بھی سبق ملےگا ۔یہ من چاہی ہے۔باقی ہوتا "رب چاہی” ہے۔ «بیدہٖ المک»