از قلم : ابوحامد محمد شریف الحق رضوی ارشدی مدنی کٹیہاری
حضور پرنور خاتم النبیین سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلیہم اجمعین کا خاتم یعنی بعثت میں آخر جمیع انبیاء ومرسلین بلا تاویل وبلا تخصیص ہونا ضروریاتِ دین سے ہے جو اس کا منکر ہو یا اس میں ادنیٰ یا ذرہ برابر شک وشبہ کو بھی راہ دے کافر ومرتد اور معلون ہے آیتِ کریمہ ولكن رسول الله وخاتم النبيين – لیکن آپ اللہ کے رسول اور انبیاء کے خاتم ہیں – اور حدیث متواتر لا نبی بعدی – میرے بعد کوئی نبی نہیں – سے تمام امتِ مرحومہ نے سلفًا وخلفًا یہی معنی سمجھے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بلا تخصیص تمام انبیاء میں آخری نبی ہوئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد قیامِ قیامت تک کسی کو نبوت ملنی محال ہے –
حضرت علامہ امام قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ شفا شریف میں فرماتے ہیں :
جو ہمارے نبی حضور رحمتِ عالم نورمجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانہ میں یا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد کسی کی نبوت کا ادعا کرے کافر ہے (اس قول تک) یہ سب نبی کریم رؤوف ورحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تکذیب کرنے والے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خبر دی کہ وہ خاتم النبیین ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ خبر دی کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور ان کی رسالت تمام لوگوں کو عام ہے اور امت نے اجماع کیا ہے کہ یہ آیات واحادیث اپنے ظاہر پر ہیں جو کچھ ان سے مفہوم ہوتا ہے وہی خدا ورسول کی مراد ہے نہ ان میں کوئی تاویل ہے نہ کچھ تخصیص تو جو لوگ اس کا خلاف کریں وہ بحکمِ اجماعِ امت وبحکمِ قرآن وحدیث سب یقینًا کافر ہیں
(الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ ‘ فصل فی تحقیق القول فی اکفار المتأولین ‘ شرکت صحافیہ فی البلد العثمانیہ ترکی ‘ 2/ 71/)
عارفِ باللہ حضرت علامہ سیدی عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی شرح الفرائد میں فرماتے ہیں :
ہمارے نبی سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ یا بعد کسی کو نبوت ملنی جائز ماننا تکذیبِ قرآن کو مستلزم ہے کہ قرآنِ عظیم تصریح فرما چکا ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خاتم النبیین وآخر المرسلین ہیں ‘ اور حدیث شریف میں فرمایا کہ : میں پچھلا نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں – اور تمام امت کا اجماع ہے کہ یہ کلام اپنے ظاہر پر ہے یعنی عموم واستغراق بلاتاویل وتخصیص یہ ان مشہور مسئلوں میں سے ہے جن کے سبب ہم اہلِ اسلام نے کافر کہا فلاسفہ کو ‘ اللہ تعالیٰ ان پر لعنت کرے –
( المعتمد المنتقد بحوالہ المطالب الوفیہ شرح الفرائد السنیہ ‘ تجویز نبی بعدہ کفر ‘ مکتبۃ الحقیتیۃ استنبول ترکی ‘ ص ‘ 115/)
حضرت علامہ امام شہاب الدین فضل اللہ بن حسین تورپشتی حنفی کتاب المعتمد فی المعتقد میں فرماتے ہیں :
بحمداللہ تعالیٰ یہ مسئلہ اہلِ اسلام کے ہاں اتنا واضح اور آشکار ہے کہ اسے بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں ‘ اللہ تعالیٰ نے خود اطلاع فرمادی ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ‘ اگر کوئی شخص اس کا منکر ہے تو وہ اصلًا آپ کی نبوت کا معتقد نہیں کیونکہ اگر آپ کی رسالت کو تسلیم کرتا تو جو کچھ آپ نے بتایا ہے اس کو حق جانتا جس طرح آپ کی رسالت ونبوت تواتر سے ثابت ہے اسی طرح یہ بھی تواتر سے ثابت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تمام انبیاء کے آخر میں تشریف لائے اور اب تاقیامت آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا جس کو اس بارے میں شک ہے اسے پہلی بات کے بارے میں شک ہوگا ‘ صرف وہی شخص کافر نہیں جو یہ کہے کہ آپ کے بعد نبی تھا یا ہے یا ہوگا بلکہ وہ بھی کافر ہے جو آپ کے بعد کسی نبی کی آمد کو ممکن تصور کرے ‘ خاتم الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر ایمان درست ہونے کی شرط ہی یہ ہے –
(المعتمد فی المعتقد)
بحرالکلام امام نسفی وغیرہ میں ہے :
من قال بعد نبينا نبی يكفر لانه انكر النص وكذالك لو شك فيه
یعنی جو شخص یہ کہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد نبی آسکتا ہے وہ کافر ہے کیونکہ اس نے نص قطعی کا انکار کیا ‘ اسی طرح وہ شخص جس نے اس کے بارے میں شک کیا – (بحرالکلام)
درمختار وبزازیہ ومجمع الانہر وغیرہا کتب کثیرہ میں ہے :
من شك فی كفره وعذابه فقد كفر
جس نے اس کے کفر و عذاب میں شک کیا وہ بھی کافر ہے –
(مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر ‘ فصل فی احکام الجزیہ ‘ دار احیاء التراث العربی بیروت ‘ 1/ 677/)
بالجملہ آیۂ کریمہ ولكن رسول الله وخاتم النبيين مثل متواتر لانبی بعدی قطعًا عام اور اس میں مراد استغراقِ تام اور اس میں کسی قسم کی تاویل وتخصیص پر اجماعِ امت خیرالانام علیہ وعلیہم الصلوٰۃ والسلام ‘ یہ ضروریاتِ دین سے ہے اور ضروریاتِ دین میں کوئی تاویل یا اس کے عموم میں کچھ قیل و قال اصلًا مسموع نہیں –