ازقلم : نیاز جے راج پوری علیگ
ہوگا کل آسانیوں میں آج جو مُشکِل میں ہے
قافلہ عزم و شُجاعت کا رہِ منزِل میں ہے
عظمتِ خاکِ وطن مُضمِر ہمارے دِل میں ہے
منزِلِ امواج جیسے دامنِ ساحِل میں ہے
جذبۂ اِمداد رقصاں قلبِ مُتحمِّل میں ہے
سُنتے ہیں دُشمن ہمارا آجکل مُشکِل میں ہے
پیار سے پیارا وطن میرا ہے یُوں جلوہ فگن
چودھویں کا چاند جیسے تاروں کی محفِل میں ہے
جو وطن کی راہ میں جاں دے دیں وہ مرتے نہیں
ہر شہید اِس دیش کا زِندہ ہمارے دِل میں ہے
بے مزہ ہے زِندگی اُس کی جو خائِف موت سے
زِندہ رہنے کا مزہ تو کُوچۂ قاتِل میں ہے
بُھول کر سب رنجِشیں آ جا گَلے مِل جائیں ہم
مَیں پریشاں بِن تِرے تُو میرے بِن مُشکِل میں ہے
میرے ہمسائے ، مِرے بھائی ، مِرے دُشمن بتا
کیا کروں تُجھسے گَلے مِلنے کی حسرت دِل میں ہے
کھیل جانے کون سا اہلِ سیاست کھیل جائیں
خدشۂ خدع عجب سا رہتا ذہن و دِل میں ہے
شور و شر ، فِرقہ پرستی ، جبر و اِستحصال اُف !
خیر ہو ! شہزادایِ آزادی بھی مُشکِل میں ہے
اُردو آزادی کے متوالوں کے نعروں کی زباں
حیف ! اِس آزاد بھارت میں بڑی مُشکِل میں ہے
کَل کے بھارت کی جو اُردو شان اور پہچان تھی
اجنبی سی آج کے بھارت کی ہر محفِل میںہے
روٹی کپڑا اور مکاں کی جُستجو میں دَربَدر
مُبتلا ہر شخص جیسے سعیِ لا حاصِل میں ہے
چشتی نانک رام گوتم بُدّھ کے اِس دیش میں
کاش ! کوئی پوچھ لیتا ، کوئی کیوں مُشکِل میں ہے
رنگ جیسے رنگ میں مِل جائیں، یُوں ہم کو مِلا
اے خُدا ! لَب پر دُعا ہے اور ارماں دِل میں ہے
نذرِ بِسمِلؔ یہ غزل میری ہے کیوں کہ ایے نیازؔ
جو دِلِ بِسمِل میں کَل تھا ، آج میرے دِل میں ہے