مضامین و مقالات

طلاق ثلاثہ بل وقانون کی بھی سالگرہ!!

تحریر : جاوید اختر بھارتی

مسلسل کوششوں کے بعد آخر بی جے پی قیادت والی مرکزی حکومت کو دو سال قبل 2019 میں طلاق ثلاثہ بل پاس کرانے میں کامیابی حاصل ہوہی گئی اور تین طلاق کے خلاف قانون بن گیا اس کے بعد کئی سوال پیدا ہوگئے حکومت کی منشا کیا ہے، حکومت کو مسلم خواتین کی اتنی فکر کیوں ہوئی، کیا کبھی مسلم قیادت بھی ابھر سکتی ہے، کیا کسی مسلم سیاسی لیڈر کو قوم مسلم اپنا رہنما تسلیم کر سکتی ہے، کیا فرقہ بندی کی زنجیر ٹوٹے سکتی ہے، کیا اب تین طلاق نہ دینے کیلئے مہم چلائی جائے گی، کیا مسلمان اب سے علماء کرام و مفتیان عظام سے اپنا مسئلہ حل کرائے گا اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں اب ریلیاں اور جلسے کرنا سانپ گذر جانے کے بعد لکیر پر لاٹھی پیٹنے جیسا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے،، ہمیں اس معاملے میں بی جے پی سے زیادہ شکوہ گلہ نہیں ہے کیونکہ اس کا نظریہ واضح ہے اور وہ اپنے نظریات کے مطابق کام کر رہی ہے ہمیں زیادہ شکوہ گلہ اپوزیشن پارٹیوں سے ہے جو دن رات سیکولرازم کا ڈھنڈورا پیٹتی رہتی ہیں ان سے سوال ہے کہ جب راجیہ سبھا میں بی جے پی کی اکثریت نہیں ہے تو یہ بل کیسے پاس ہوئی اپوزیشن نے واک آؤٹ کیوں کیا یہیں سے اپوزیشن کے منافقانہ کردار کی بو آتی ہے اپوزیشن کا کام تو بیدار پہریدار کا رول ادا کرنا ہے اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ اپوزیشن اور بی جے پی کے مابین معاہدہ تھا اب حکومت کی جانب سے انہیں اس کے بدلے میں جو بھی آفر ملا ہو لیکن مسلمان تو ڈنکے کی چوٹ پر کہہ سکتا ہے کہ کوئی پارٹی سیکولر نہیں ہے اور موجودہ دور میں نام نہاد سیکولر سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کے ساتھ وشواس گھات کیا ہے اور دھوکہ دیا ہے انتخابات میں ان پارٹیوں نے مسلمانوں کو بی جے پی سے ڈرایا اور مسلمانوں و بی جے پی کے درمیان گہری کھائی پیدا کرائی مسلمانوں کے ساتھ اپوزیشن کی ساری ہمدردیاں جھوٹی ثابت ہوئیں اب حکومت نے تین طلاق کے خلاف بل پاس کرالیا اور قانون بن گیا اور اس قانون کے تحت اب جو طلاق دیگا تو اسے تین سال تک کی جیل ہوسکتی ہے اور جیل سے رہائی کے بعد بھی اس کی بیوی اس سے الگ نہیں ہوگی،، یہی شریعت میں مداخلت ہے، یہی شریعت کے خلاف ہے سب سے پہلے تو یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ طلاق کے بعد جب شوہر کو تین سال جیل کی سزا ہوگئی اس کے بعد بھی طلاق نہیں مانی جائے گی تو پھر شوہر کو جیل بھیجا کیوں جائے گا جب طلاق ہی نہیں ہوئی تو پھر سزا کس بات کی، جب جرم ہی سرزد نہیں ہوا تو سزا کس بات کی دیجائیگی کیا زبان سے لفظ طلاق ادا کرنے کی سزا دیجائیگی دوسری بات کہ صرف شوہر ہی نہیں طلاق دینا چاہتا،، کبھی کبھی ایسا موقع بھی آتا ہے کہ بیوی بھی طلاق چاہتی ہے تو جب طلاق کا سسٹم ہی ختم ہوجائے گا تو ایک وہ عورت جس کا اپنے شوہر کے ساتھ گذر ہونا بہت مشکل ہے وہ اس کی غلط عادتوں سے اس کے ہر ہر فعل سے عاجز اچکی ہے اب اس کے سامنے طلاق کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے تو وہ کیا کرے گی اور ایسی صورت میں بھی طلاق ہو نہیں سکتی تو وہ اس کے چنگل سے آزاد بھی نہیں ہوسکتی تو آخر کس بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ عورت کو آزادی مل گئی بہت بڑی مشکلات سے چھٹکارا حاصل ہوگیا اور حد تو یہ ہے کہ یوم مزدور، یوم خواتین، یوم اساتذہ، یوم مادر کی طرح یوم حقوقِ خواتین بھی منایا جانے لگا،، جبکہ مذکورہ قانون و شرائط کے اعتبار سے دیکھا جائے تو عورت کے اوپر ظلم کیا گیا ہے وہ کرائے کی خواتین ہیں جو نقاب لگا کر ذاتی مفاد میں اندھی ہوکر طلاق ثلاثہ بل کی حمایت کر رہی تھیں اور کررہی ہیں، جو شریعت اسلامیہ کے تقدس کو پامال کررہی تھیں اور کررہی ہیں جس عورت کے دل میں احکامات اسلام کا احترام ہوگا، نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا احترام ہوگا، جس عورت کے دل میں حضرت خدیجہ، حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت فاطمہ، حضرت زینب، حضرت ام کلثوم اور حضرت رقیہ کی محبت ہوگی وہ شریعت اسلامیہ کے خلاف ایک قدم بھی نہیں بڑھا سکتی کیونکہ اسے معلوم ہے کہ عورتوں کو جو مقام مذہب اسلام نے دیا ہے وہ مقام دنیا کے کسی مذہب نے نہیں دیا ہے ابھی پیدا ہوئی ہے ابھی وہ بیٹی ہے والدین کے ذمے تعلیم و تربیت ہے فرمایا رسول کائنات نے کہ جس نے اپنی بیٹی کی اچھی طرح کفالت کی تعلیم و تربیت کی اور اسے دینداری سکھائی پھر نیک و دیندار گھرانہ دیکھ کر شادی کردی تو وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ایسے رہے گا جیسے دو انگلیاں آپس میں ساتھ رہتی ہیں اب شوہر اپنی بیوی کو رزق حلال کا ایک لقمہ بھی منہ میں ڈالیگا تو اسے اس کا ثواب ملے گا،، عورت حاملہ ہوگئی ہے خدا نخواستہ پیدائش کے دوران عورت کا انتقال ہوگیا تو وہ عورت شہید کے درجے میں شمار کی جائے گی،، پیدائش ہوگئی سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے تو اسی عورت کی اولاد کیلئے نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہاری ماں کے قدموں تلے جنت ہے،، اسی عورت کے بارے میں اولاد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تم نے اپنی ماں کی اطاعت و فرمانبرداری کی اور ایک نظر اپنی ماں کا چہرہ دیکھا تو تجھے ایک حج کے برابر ثواب عطا کیا جائے گا،، اولاد کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ تیری ماں کا مقام و مرتبہ یہ ہے کہ تو اپنے کاندھے پر بیٹھا کر اپنی ماں کو کعبے کا طواف بھی کرا دیگا تو وہ سردی کی ایک رات جب تو بہت چھوٹا تھا بستر پر پیشاب کردیا کرتا تھا تو تیری ماں بھیگا ہوا حصہ موڑ کر تجھے سلاتی تھی اور خود اپنے بغیر بستر کے سوتی تھی تیرا یہ کاندھے پر بیٹھا کر طواف کرانا اس ایک ادا کے برابر بھی نہیں ہے بلکہ جب تو پیدا ہواتھا تو تیری ماں کے منہ سے جو آہ کی آواز نکلی تھی اس آہ کے برابر بھی نہیں ہے،، سوچنے اور غور کرنے کا مقام ہے مذہب اسلام نے عور ت کو کتنا اونچا مقام عطا کیا ہے عورت کو تو مذہب اسلام نے وہ مقام دیا ہے کہ پل صراط سے جب حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی سواری گزرے گی تو اعلان کردیا جائے گا آئے لوگوں اپنی نگاہیں نیچی کرلو شہزادئ اسلام فاطمہ کی سواری گزرنے والی ہے مذہب اسلام نے عورت کو بیٹی ہونیکی، بیوی ہونیکی، ماں ہونیکی اور خاتون جنت ہونیکی حیثیت سے مقام عطا کیا ہے حضرت ہاجرہ کا صفا مروہ کے درمیان دوڑنا حج کے ارکان میں شامل کرکے مذہب اسلام نے عورت کا مقام بلند کیا ہے شوہر اگر بدمزاج ہو تو حالت روزہ میں زبان کی نوک سے کھانے کا نمک چکھ کر تھوک دینے کی اجازت دیکر مذہب اسلام نے عورت کا مقام بلند کیا ہے لیکن پھر بھی بی جے پی حکومت اور وزیراعظم نریندر مودی جی کو مسلم خواتین کی اتنی فکر کیوں ہے قصور ہمارا بھی ہے مذہب اسلام نے عورت کو گھر کی زینت قرار دیا ہے اور ظاہر بات ہے کہ زینت کی حفاظت کی جاتی ہے لیکن ہم نے اپنی زینت کو بازاروں میں سجانا شروع کردیا مذہب اسلام نے نکاح کو آسان کرکے زنا مشکل بنایا ہے اور ہم نے آج نکاح شادی بیاہ کو کٹھن مہنگا اور مشکل کرکے زنا کو آسان بنا دیا ہم نے اپنے ہی رشتہ داروں پڑوسیوں کی بہنوں اور بیٹیوں کی عزت کو تار تار کرنا شروع کردیا جس جرم کی سزا مذہب اسلام نے موت تک مقر کی ہے ہم نے اس جرم کو سیر و تفریح کا کھلونا بنادیا عورت کو اپنے شوہر کے لیے سجنا سنورنا ثواب بتایا گیا آج عو رتوں نے مختلف پروگراموں میں سج سنور کر دیکھانا شروع کردیا جبکہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے چھوٹی اور نابالغ بچی نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسليم کے گھر آتی تھی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا اس کو کھلایا کرتی تھیں لیکن ایک دن وہی بچی پیروں میں گھنگھرو پہنے ہوئے آئی تو عائشہ صدیقہ نے چیخ کر کہا ائے میری پڑوسن اؤ اپنی بچی کو جلدی لیجاؤ ورنہ رسول پاک صل اللہ علیہ وسلم آجائیں گے تو بہت ناراض ہوں گے کیونکہ ایک عورت کو گھنگھرو پہن کر باہر نکل نے کی اجازت نہیں ہے یہیں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مذہب اسلام کے اندر جائز چیزوں میں بھی سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے لیکن ہم نے اسے بھی فخریہ انداز میں اپنا سپر پاور سمجھ لیا اور ایک ایک سانس میں تین نہیں درجنوں مرتبہ زبان سے وہ لفظ ادا کرنا شروع کردیا جبکہ ایک مرتبہ اللہ کے نبی صل اللہ علیہ وسلم کے پاس خبر آئی کہ فلاں شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیدی تو رسول پاک کا چہرہ سرخ ہوگیا اور فرمایا کہ میری زندگی میں ہی قرآن کا مزاق بنایا جارہا ہے اور آج ہم ہیں بحث پر بحث کتاب پر کتاب تکرار پر تکرار تین طلاق تین مانی جائے گی،، تو تین طلاق ایک مانی جائے گی،، دلائل پر دلائل پیش کر تے ہیں،، اور جب وقت آیا دلائل پیش کرنے کا تو ایک بھی دلائل پیش نہیں کیا جاسکا مسلمانوں کی اسی کمزوری اور اسی نااتفاقی و انتشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بی جے پی نے قدم اٹھایا تو اب سر پیٹ رہے ہیں آخر ابتدا سے ہی ایسا ماحول کیوں نہیں تیار کیا گیا کہ کوئی تین طلاق کا تصور ہی نہ کرسکے جبکہ یہ حقیقت ہے کہ میاں بیوی کے درمیان تعلقات انتہائی خراب ہوں پھر بھی ایک ساتھ تین طلاق کی گنجائش نہیں ہے،، ہم نے اپنے اپنے مکتب فکر کا تو خوب پرچار پرسار کیا ایک دوسرے پر خوب الزامات عائد کئے لیکن حقیقت سے کنارہ کشی اختیار کرتے رہے،، بی جے پی حکومت نے فائدہ اٹھایا کہ مسلمان منتشر رہیں،، سیاسی شعور سے دور رہیں،، مسلم قیادت سے محروم رہیں،، ہمارا حال آج کیا ہے نہ سیاسی شعور ہے، نہ قیادت ہے، نہ کسی کو قائد ماننے کا جذبہ ہے، نہ کسی کے اندر قیادت کرنے کا حوصلہ ہے. نہ کوئی حوصلہ افزائی کرنے والا ہے،، اور اسی لئے ہم جزباتی نعروں اور جذباتی تقریروں کی رو میں بہہ جاتے ہیں اور لوگ اپنا مفاد حاصل کرنے کے بعد ہمارے ہی ساتھ دھوکہ کرتے ہیں آستین کے سانپ کا کردار ادا کرتے ہیں اور منافقت سے کام لیتے ہیں جیسا کہ طلاق ثلاثہ بل معاملے میں نام نہاد سیکولر سیاسی پارٹیوں نے کیا ان کے چہرے بے نقاب ہو گئے جو کل تک مسلمانوں کے بڑے ہمدرد بنتے تھے دیگر مسلم ممبران پارلیمنٹ نے بھی زبانیں بند رکھیں اب سے کام شروع کردینا چاہیے سارے اختلافات بھلا کر صرف قوم کو یہ پیغام دیا جاناچاہئے کہ سماج اور معاشرے میں طلاق کی نوبت ہی نہ آئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم نے اپنے ذاتی مفاد کے لئے طلاق ہونے کے بعد علماء کرام و مفتیان عظام کو ٹھکرا کر ملک کی عدالتوں میں جانا شروع کردیا تھا اگر ہم نے ایسا نہ کیا ہوتا تو شریعت میں مداخلت کرنیکی کسی کے پاس ہمت نہیں ہوتی اب سے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہوگا انتشار و افتراق کی زنجیر کو توڑنا ہونا اور اپنا سیاسی، سماجی، دینی محاسبہ کرنا ہوگا اور صبر کا دامن تھامنا ہوگا اور اپنے آپکو مسلمان ثابت کرنا ہوگا-

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے