مضامین و مقالات

گود میں اپنا بچہ ٹی وی پر پیر صاحب کا بچہ ، آنے والے وقت میں ڈرامے باز ہوگا ایسا بچہ

تحریر : محمد جمشید رضوی ، بنگال

عید الاضحی نے ہمیں یہ پیغام دیا کہ اگر تم اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو سچے دل سے مان رہے ہو تو ہر چیز کی قربانی دینے کے لئے تیار رہو ۔

وہ کیسا جذبہ تھا کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لیے لے جا رہا ہے اور زبان پر شکوہ تک نہیں کہ اے اللّٰہ یہ میرا اپنا خون ہے میں کیسے اس چھوٹے سے بچے کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کر دوں ۔

وہ بھی ایسے بیٹے کو جو اتنی مدت کے بعد ملا ہے جسے ٹھیک سے پیار بھی نہیں کر پایا ہوں ۔ اس کی ماں کو جب معلوم ہوگا کہ میرا لخت جگر مجھے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جا چکا ہے تو اس پر کیا بیتے گی ۔

بیٹا بھی کتنی ہمت و جرأت اور صبر و استقلال کا پیکر ہے کہ معلوم ہونے کے بعد بھی کہتا ہے آپ کو جو حکم ملا ہے اسے کر دیجیے ان شاءاللہ آپ مجھے صابر پائیں گے ۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ باپ نے اپنے بیٹے کو کس قدر اعلیٰ تربیت سے آراستہ کیا ہوگا کہ بیٹا سب کچھ اللّٰہ ہی کا ہے اسی کی رضا کے لیے جینا اسی کی رضا کے لیے مرنا ۔

چنانچہ باپ بیٹے نے وہ حیرت انگیز کارنامہ انجام دیا کہ دنیا آج تک حیران ہے کہ باپ نے اپنے رب کی خاطر اپنے جگر کے ٹکڑے کو قربان کر دیا اور بیٹا بھی ایسا ہمت والا کہ قربان ہونے کو تیار ہو گیا ۔

جب ایسی بے مثال قربانی پیش کی گئی تو اللّٰہ تعالیٰ نے رہتی دنیا تک حالت نماز میں ہر مسلمان کی زبان پر یہ دعا جاری فرما دیا: کما صلیت علٰی سیدنا ابراہیم و علی آل سیدنا ابراہیم ۔

آج ہر باپ کی سوچ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی طرح ہونی چاہیے اور ہر بیٹے کی ہمت حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی طرح ہونی چاہیے ۔

ایک باپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی اچھی تربیت کرے ۔ اسے اچھا اخلاق سکھائے ۔ اور اللہ عزوجل و رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی رضا کی خاطر جینے مرنے کا سبق سکھائے ۔

لیکن آج بچہ پیدا ہوا کہ فوراً اسے سیلفی کا سبق دیتے ہیں ۔ ویڈیو کالنگ کا درس دیتے ہیں ۔ پھر جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے اسی قدر وہ موبائل کا ماہر اور استاد بن جاتا ہے ۔

پھر جب وہ چھوٹا رہتا ہے تو فل ساؤنڈ میں کارٹون دیکھتا ہے ۔ تھوڑا بڑا ہوتا ہے تو چھوٹے چھوٹے بچوں کا کھیل تماشہ دیکھتا ہے ۔ پھر جوانی کی دہلیز پر پہنچتے پہنچتے پیار محبت عشق بازی بے حیائی کھیل تماشوں کا عادی بن جاتا ہے ۔

ماں باپ صرف پیدا کر کے موبائل کے سہارے چھوڑ دیتے ہیں ۔ پھر بچہ دن رات موبائل میں کھیل تماشا ناچ گانا دیکھ دیکھ کر کامیابی اسی کو سمجھ لیتا ہے کہ گھر مکان کھانا پینا موج مستی ہی زندگی ہے ۔

اور کچھ لوگ اپنے بچوں کو دیندار بنانا بھی چاہتے ہیں تو خود سے نہیں بلکہ ٹی وی موبائل ڈرامے بازی سے بنانا چاہتے ہیں تاکہ بڑے ہوکر وہ خود سیلفی ویڈیو کے ماہر ہو جائیں اور ٹی وی موبائل سے دین سیکھتے سیکھتے وہ خود اپنے چینلوں کے ایکٹر ڈائریکٹر بن جائیں ۔

آج نہ باپ کے پاس وقت ہے نہ ماں کے پاس فرصت ہے کہ بچوں کو دیندار بنائیں ۔ ایک گھنٹہ خاندانی چینل پر کارٹون اور باقی گھنٹے کھیل تماشا موج مستی دکھا کر یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہمارے بچے صلاح الدین ایوبی اور اورنگزیب کی طرح بہادر نکلیں گے ۔

اپنے بچوں کی ہر جائز و نا جائز ضرورتوں کو پوری کر کے اسے نفس کا پجاری بنا کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہمارا بچہ بڑا ہوکر اسلام مخالف طاقتوں کے سامنے پہاڑ کی طرح ڈٹا رہے گا ۔

ایسا ہر گز نہ ہوگا ۔ جو بچہ پیدا ہوتے ہی پیر صاحب اور ان کے بچوں کے سیلفی ویڈیو چھوٹا کیمرہ بڑا کیمرہ ایکٹنگ ڈرامہ دیکھ کر اسے دل و دماغ میں بساتا چلا جائے گا ۔ تو وہ ڈرامے باز تو ہو سکتا ہے مگر اسلام کا سچا وفادار نہیں ہو سکتا ۔

وہ شہرت پسند تو ہو سکتا ہے مگر مسلمانوں کا سچا خیر خواہ نہیں ہو سکتا ۔ وہ دس پندرہ چینلوں کا لیڈر تو ہو سکتا ہے مگر وہ قوم مسلم کا سچا قاعد نہیں ہو سکتا ۔

جب ماں باپ پیر صاحب سیلفی ویڈیو ڈرامے کے دلدادہ ہوں گے تو بچہ بچہ شیخ خرافات اور امیر اہل فسادات ہوگا ۔ جو آنے والے وقت میں الجہاد الجہاد کا نعرہ لگانے کے بجائے گھر مکان مدرسہ مسجد میں ٹی وی اسکرین لگا کر سبسکرائب سبسکرائب کی بھیک مانگتا پھرے گا ۔ اور کہے گا ہم امن والے لوگ ہیں کسی کا احتجاج نہیں کرتے ۔

ماں باپ اپنی ذمے داری سنبھالے اور بچوں کو ٹی وی موبائل سے دین سکھانے کے بجائے کتابوں اور اپنی محنتوں سے دین سکھائیں ۔ ڈاکٹر انجینئر بنانے کے لیے جب ٹی وی ویڈیو سیلفی کی ضرورت نہیں تو اللّٰہ کا پسندیدہ دین کیوں کر ٹی وی ویڈیو سیلفی کیمرہ اور ڈرامے کا محتاج ہوگا ۔

ڈاکٹر انجینئر بنانے کے لیے ہر چیز وقت پر کر سکتے ہیں ۔ بچوں کو کڑاکے کی سردی میں نیند سےجگا بھی سکتے ہیں ۔ پیسہ بھی پانی کی طرح بہا سکتے ہیں ۔ مگر دین کی تعلیم سکھانے کے لیے تھوڑی محنت بھی نہیں کر سکتے بس ٹی وی موبائل میں خاندانی چینل اور خاندانی کارٹون ایک گھنٹہ دکھا دئیے بس یہی کافی سمجھتے ہیں ۔

ہمارے بزرگوں نے اپنے بچوں کو لالی پاپ دیکر دین کا سپاہی نہیں بنایا تھا بلکہ دن رات ان کے پیچھے محنت و مشقت کر کے اور ان کے دلوں میں ہر چیز سے زیادہ اللّٰہ عزوجل و رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سچی محبت داخل کر کے انہیں مجاہد اسلام بنایا تھا ۔

سیدنا غوث پاک کے والد گرامی نے نہر سے ایک سیب اٹھا کر کھا لیا تھا جو کہ معمولی سی بات تھی ۔ لیکن دل میں ایک سوچ تھی کہ نفس کو اگر اسی طرح آزاد چھوڑ دیا جائے تو کل ہوکر یہ نا جائز و حرام کام پر بھی ابھارے گا ۔ اور دھیرے دھیرے گناہوں پر ڈھیٹ اور دلیر بنا دیگا ۔

چنانچہ باغ کے مالک کے پاس معذرت کرنے پہنچ گئے ، مالک نے جب اللّٰہ کا یہ خوف دیکھا اور تقویٰ و پرہیز گاری میں بے مثال پایا تو اپنی لڑکی کا نکاح ان کے ساتھ کر دیا ۔

لڑکی بھی ایسی کہ جس نے غیر مرد کی پرچھائی تک کو نہ دیکھا تھا ۔ جب ایسے پاک صاف اللّٰہ والوں کا آپس میں رشتہ ہوا تو دینا میں آنے والا بچہ اس شان سے آیا کہ تمام ولیوں کا سردار بن کر تشریف لایا جو آج بھی سارے عالم کو چمکاتا ہوا نظر آ رہا ہے ۔

بریلی کی سرزمین پر حضرت مولانا رضا علی خان نے اپنے بیٹے نقی علی خان کا ایسی پاکباز نیک سیرت خاتون سے رشتہ جوڑا جو اپنے زمانے کی رابعہ بصری تھی ۔

جب ماں ہو ایسی پرہیز گار متقیہ اور باپ ہو ایسا متقی پرہیز گار تو دونوں کے وجود سے ایسا بے مثال عاشق رسول مجدد اعظم پیدا ہوتا ہے کہ جس سے خوش ہو کر ساری دنیا پکار اٹھتی ہے ڈال دی قلب میں عظمت مصطفیٰ سیدی اعلیٰ حضرت پہ لاکھوں سلام ۔

پھر اسی مجدد اعظم نے اپنے بیٹوں کو ایسا عشق رسول پلایا کہ جب اچھے اچھے مفتی حالات کا بہانا لیکر اپنا فتویٰ بدل رہے تھے اور کئی مفتی ڈر کے مارے چپ چاپ بیٹھے تماشہ دیکھ رہے تھے تو رضا کے بیٹوں نے حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایسا فتویٰ شائع کیا کہ حکومت کی کمر توڑ کر رکھ دی ۔

آج بھی رضا کے شہزادوں کا یہی طریقہ ہے کہ جب نام نہاد مفتی یا محقق دنیا کی چمک دمک دیکھ کر بے حیائی کو دین کا تحفظ فراہم کر رہے تھے اور دشمنان خدا و رسول سے چھپ چھپ کر دوستی نبھا رہے تھے تو رضا کے شہزادے اختر رضا نے دین فروش ملاؤں پر رضا کا ایسا نیزا مارا کہ آج تک وہ لوگ بلبلاتے در بدر بھٹکتے پھر رہے ہیں ۔

اور جب دین فروش محقق حکومت ہند کو خوش کرنے کے لیے اپنے گلشن عطار میں کورونا ہینڈ واش کیمپنگ کی مہم چلا رہے تھے اور اپنی ویڈیو فلم بنوا کر خوب شہرت حاصل کر رہے تھے ۔

تبھی اختر رضا خان کے شہزادے حکومت کی پرواہ کئے بغیر سب سے سخت لاکڈاون میں بھی لاکھوں عاشقان رسول کو جمع کر کے گستاخ رسول نرسنگھانند کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے ۔

اور جب یوپی کے ولدالزنا روگی مہا فساد نے ہر مدرسے میں کفریہ نعرہ لگانے کو کہا تھا تو اس وقت نام نہاد محقق میٹھے مبلغوں کا دوپٹہ چھین کر گلشن عطار کے بیت الخلا میں چھپ کر بیٹھے تھے ۔

تب اختر رضا خان کے سچے جانشین نے اس دس مردوں کے نطفے سے پیدا ہونے والے مہا فساد کو للکارتے ہوئے کہا تھا جو گیت اسلام کے مخالف ہے ہم اسے ہر گز نہیں پڑھیں گے ۔

تو دن رات سیلفی ویڈیو ٹی وی ڈرامہ چھوٹا کیمرہ بڑا کیمرہ وغیرہ میں تحقیق کر کے محقق بن جانا بہت آسان ہے مگر دشمنان اسلام کا جواب دینا اتنا آسان نہیں ۔

دشمنان اسلام کا جواب وہی دے سکتا ہے جو اعلیٰ حضرت سے محبت کرتا ہے ، جو مسلک اعلیٰ حضرت پر دل و جان سے فدا ہے ۔

اور جو ڈر کے مارے مسجد کا گیٹ بند کر کے جمعہ پڑھے وہ ڈرپوک کیا جواب دے سکتا ہے ۔ اور جو چلتی ٹرین پر دوڑتے بھاگتے نماز پڑھ کر دوہرانے میں سستی کرے وہ کاہل کیا جواب دے سکتا ہے۔

جو چاند کی شرعی شہادت لینے گھر سے باہر نہ نکلے اور دوپٹے میں چھپ کر فون سے غیر استفاضہ خبر لیتے ہوئے چاند کا اعلان کر دے وہ متکبر کیا جواب دے سکتا ہے ۔

اپنا قاعد ایسا چنو جو گھر مکان زمین جائداد کے چلے جانے پر صبر کرنے کی تعلیم دے ۔ اور جب شریعت و ایمان پر حملہ ہوتا دیکھے تو دشمن خدا و رسول کے سینے پہ چڑھ کے حق کی آواز بلند کرتا ہوا دکھائی دے ۔

اسلام کی تاریخ جہاں بہادروں مجاہدوں سے چمک رہی ہے وہیں بے شمار غداروں اور ملت فروشوں کی گندگی سے بھی بھری پڑی ہے ۔

اللّٰہ تعالیٰ ہمیں وفاداروں کے ساتھ میں رکھے اور غداروں سے دور رکھے ۔ سیلفی ویڈیو ٹی وی چھوٹا کیمرہ بڑا کیمرہ کی تبلیغ کرنے والے ڈھونگی پیروں سے بھی محفوظ رکھے ۔

کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے


گود میں اپنا بچہ ٹی وی پر پیر صاحب کا بچہ ، آنے والے وقت میں ڈرامے باز ہوگا ایسا بچہ” پر 0 تبصرے

  1. ایسے جاہلوں کے مضامین کو اپنی ویب سائٹ پر جگہ نہ دیا کریں ۔۔۔ امید ہے آئندہ غیر معیاری اور طعن و تشنیع کی آمیزش والے مضامین دوبارہ نہیں پڑھنے پڑیں گے ۔۔۔ ورنہ وزٹ ہی نہیں ہوگا۔

    1. معذرت!!!
      ہم نے آپ کا تبصرہ کافی بعد میں دیکھا۔ مگر تبصرہ دیکھتے ہی جب مضمون پر نظر ثانی کی تو واقعتاً مضمون قابل گرفت تھا۔ اس لیے ہم نے فوری کرروائی کرتے ہوئے مضمون کو ویب سائٹ سے ڈیلیٹ کردیا۔ شکریہ
      ہماری آواز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے