رشحات قلم : ذکی طارق بارہ بنکوی
جو تھی تجھ کو مجھے دے گئی چاہئے
پھر وہی رات نعمت بھری چاہئے
اس کے چہرے کی تابندگی چاہئے
ہے اندھیرا بہت روشنی چاہئے
جان تو اپنی مخمور آنکھیں دکھا
مجھ کو صہبا شکن مے کشی چاہئے
تیری چاہت نے بے حوصلہ کر دیا
مجھ کو پھر سے تری سرکشی چاہئے
آ، اے جانِ غزل میرے نزدیک
آکے مجھے موسمِ شاعری چاہئے
مانتا ہوں بہت ہی خفا ہو مگر
اتنی تو بات سن لینی ہی چاہئے
کےہے کس میں ہماری بھلائی چھپی
دوستی یا ہمیں دشمنی چاہئے
ساری سوچوں نے بس اک نتیجہ دیا
ہم کو کر لینی پھر دوستی چاہئے
کیونکہ ہم بھی نہیں چاہتے موت یار
اور تم کو بھی تو زندگی چاہئے