رشحات قلم : محمد اشرفؔ رضا قادری
کلکِ قدرت نے تری صورت سنواری واہ واہ
تیری سیرت کے محل کی پائداری واہ واہ
مصطفیٰ کے وصف کی سرسبز کیاری واہ واہ
باغِ فن میں نعت کی بادِ بہاری واہ واہ
جامعِ جملہ محاسن، حاملِ فضل و کمال
ہو رہی ہے ساری دنیا میں تمہاری واہ واہ
زہد کی تعلیم تجھ سے لیتے ہیں کُل اتقیاء
منبعِ تقویٰ تری پرہیز گاری واہ واہ
ہر گھڑی صلِّ علیٰ صلِّ علیٰ کے ورد سے
میرے خستہ حال دل کی سازگاری واہ واہ
رنج و غم میں جب کہا ہم نے اغثنی یا رسول
لگ گئی ساحل سے پھر کشتی ہماری واہ واہ
اپنے الطافِ کریمانہ سے اے جانِ مسیح
دور کردی تو نے میری نابکاری واہ واہ
رات کی تنہائیوں میں اپنی امّت کے لیے
رب کے آگے مصطفیٰ کی آہ و زاری واہ واہ
محفلِ قصرِ دنیٰ میں جو ہوئی تھی گفتگو
خاص تھی وہ گفتگوئے راز داری واہ واہ
پل رہے ہیں تیرے ٹکڑوں پر سگانِ کوئے تو
بھر رہے ہیں جھولیاں در سے بھکاری واہ واہ
دعوت و تبلیغ سے پیدا کیا اک انقلاب
زندگی رب کی اطاعت میں گذاری واہ واہ
نعت گوئی، مدح خوانی کی بدولت آپ نے
زندگی اشرفؔ رضا کی ہے سنواری واہ واہ