نیاز جے راج پوری علیگ
کیا کہوں ، کیا بتاؤں کہ کِس حال میں
حیف ! صدحیف !! وہ آج مجھکو مِلا
اے نیازؔ اُس کے بارے میں کیا کیا کہوں
کُچھ سمجھ میں نہیں آتا کیسے کہوں
آنکھیں بھر آئیں میری اُسے دیکھ کر
اُس کا حُلیہ عجب تھا ، عجب حال تھا
کِتنا حیران ، کِتنا پریشان تھا
جیسے اُس کو تھی خود اپنی ہی جُستجو
اپنے ماضی کی جیسے تھی اُس کو تلاش
یا ، اُسے فِکر آنے والے کَل کی تھی
آج میں گُم تھا یا کھویا تھا کَل میں وہ
جانے کِس سوچ میں تھا وہ ڈُوبا ہُوا
ہو کے آزاد وہ لگ رہا تھا غُلام
بَد حواسی ، کثافت سے دو چار تھا
اِک معمّہ تھا یا اِک پہیلی تھا وہ
جیسا تھا وہ مُجھے ویسا لگتا نہ تھا
دیکھ کر مَیں اُسے دیکھتا رہ گیا
اُس کے بارے میں ہی سوچتا رہ گیا
جانے کِس کی نظر لگ گئی تھی اُسے
زرد چہرہ تھا اُس کا شِکن دَر شِکن
اور ماتھے پہ تھیں اَن گِنت سِلوٹیں
خُشک ہونٹوں پہ اُس کے تھی پپڑی جمی
چشمِ پُر نَم اُداسی کا عنوان تھی
ہر نظر اُس کی جیسے پریشان تھی
جِسمِ لاغر پہ اُس کے کئی زخم تھے
اور ہر زخم سے رِس رہا تھا لہو
کِتنا زخمی تھا وہ ، کِتنا رنجور تھا
کِتنا لاچار تھا ، کِتنا مجبور تھا
کِتنا سہما ہُوا ، کِتنا سِمٹا ہُوا
حادثوں اور اندیشوں کی آندھی میں
اُڑتی دُھول اور مِٹّی میں وہ تھا اٹا
مَیں نے اُس سے جو پوچھا کہ تُم کون ہو
اپنے بارے مَیں کُچھ تو بتاؤ مُجھے
ایسا لگتا ہے مَیں جانتا ہُوں تُمہیں
بلکہ تُم لگتے ہو میرے اپنے مُجھے
ہو نہ ہو مَیں تمہارا ہُوں میرے ہو تم
توڑ دو خامشی اپنی بولو بولو
مجھکو بتلاؤ جلدی سے تم کون ہو
میری ضِد ، میرا اسرار بڑھتا رہا
ہاتھ اُس نے بھی سَر پر مِرے رکھ دِیا
مَیں بھی اُس سے لِپٹ کر مچلتے ہُوئے
ایک بچّے کی طرح یہ پوچھا کِیا
کون ہو کون ہو بولو ! تم کون ہو
تو سِسکتے ہُوئے ، آہیں بھرتے ہُوئے
اُس نے مُجھ سے کہا ، غور سے دیکھ لو
دیکھ لو ! آج کا مَیں ہُوں ہِندوستاں