ازقلم: شیر محمدمصباحی
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں
میں اشک حیرت سے آبدیدہ ہو گیا اور دل کا آبگینہ ٹوٹ کر بکھر گیا، جب لکھنؤ *”چڑیاگھر”* کی سیر و تفریح کے دوران ایک نو عمر مسلم بچے کو، ایک مسلم طالب علم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اپنی ماں سے یہ کہتے ہوئے سنا امی! This is a terrorist وہ بھولا بھالا، سادہ لباس طالب علم کہاں سے اسے Terrorist لگ گیا؟ آخر اس معصوم ذہن میں یہ افسوس ناک خیال کیسے اور کہاں سے جنم لیا؟ سوچ فکر میں ڈوبا تو بدخواہوں کی ایک بڑی سازش کا احساس ہوا- وہ یہ کہ دشمنانِ اسلام نے پہلے مذہبِ اسلام کو دہشت گردی سے موسوم کرنے کی کوشش کی. اس خیال کو نئی نسل کے ذہن و فکر میں محسوس صورت میں اتارنے کے لیے ایک بڑی کارگر صورت اپنائی- اس کے لیے انھوں نے پہلے قوم کو فلم بینی کا عادی بنایا پھر یہ چیز ڈال دی کہ فلموں میں جو غنڈے ہوں وہ خان ڈریس اور ڈاڑھی والے ہوں- جب بچے (خواہ مسلم ہوں یا غیر مسلم) ریش داروں کو بندوق کے ساتھ دیکھتے دیکھتے جوان ہوں گے تو پھر فرقہ پرستوں کو ان بچوں کے سادہ لوح ذہن میں اسلام مخالف تصویر کو منقش کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ ٹوپی اور ڈاڑھی والے دہشت گرد ہوتے ہیں- بلکہ وہ علماے اسلام کو دیکھتے ہی از خود انہیں دہشت گرد تصور کرنے لگ جائیں گے-
ذرا فکر کو آنچ دے کر سوچیں کے دشمنانِ اسلام اپنے سازش میں کس طرح کامیاب نظر آرہے ہیں-
ایسے ہی آزادی ہند کی تاریخی حقائق کو مٹا کر ہماری نئی نسل کی فکر میں ایک نئی سوچ ڈالی جا رہی ہے کہ آزادی ہند میں ہمارے آبا و اجداد اور علما و اسلاف کے کچھ کارنامے نہیں- جی ہاں! یہ میرا ظنِّ محض نہیں بلکہ ایک تابناک حقیقت ہے- جشن یومِ آزادی یا دیگر مواقع سے ملکی پیمانے پر منعقد ہونے والے پروگراموں کا تجزیہ کیا جائے تو صاف صاف معلوم ہو جائے گا کہ ہر پروگرام، فقط فرقہ پرستوں کی فدائی وطن ہی کے ترجمان و طرفدار ہے- یہ فرقہ پرستی یک طرفہ اپنے ہی مجاہدین کی قربانی و جاں بازی کی گن گاتے ہیں تاکہ نئی نسل کے ذہنوں میں یہ چھپ جائے کے ملک کو غلامی کی بیڑیوں سے آزاد کرانے میں ان کے سوا کسی کا کوئی کردار ہی نہیں- گاہے بگاہے اگر کبھی مسلم جاں بازوں کا نام لے بھی لیا تو تاریخی حقائق کے گلے پر چھری ہی چلتی ہے اور تاریخ اپنے مثلہ پن پر خون روتی ہے-
قارئین کرام! ایسا ہرگز نہیں کہ یہ نامساعد اور نازک حالات کسی اسلام دشمن ہنگامہ آرائی کا اثر ہے بلکہ یہ فرقہ پرست ذہنیت کے منظم منصوبہ بندی ہے- اگر بروقت علمائے اسلام اور دانشوران ملت خرگوشی جھپکی سے نکل کر ہوش کے ناخن نہ لیں تو ہماری نئی نسل کا مستقبل تاریک تر خطرات کی زد میں ہے-
لہذا علمائے اسلام اور ملت کے مفکرین سے خصوصی گزارش ہے کہ 15 اگست و دیگر قومی تہواروں کے موقع پر گاؤں شہر کے تمام اسکولوں کالجوں مساجد و مدارس اور خانقاہوں میں بڑے تزک و احتشام کے ساتھ "یوم آزادی” منائیں اور نئی نسل کو باخبر کریں کہ ہندوستان کی تعمیر و ترقی اور اس کی تزئین و آرائش میں ان کے آبا و اجداد نے کتنی جگرکاوی کی ہے!! مختلف علوم و فنون کا اسے مرکز بنایا یہاں کے انسانیت دشمن عناصر کو ختم کرکے اسے روحانی و اخلاقی ضیا سے منور کیا- صنعت و حرفت اور تہذیب و تمدن کے تابندہ نقوش ثبت کیے-
ہزار کد و کاوش کے بعد ملک ہندوستان کو "سونے کا چڑیا” بنایا.
پھر جب وقت آیا تو خونِ جگر سے سینچے اس سرسبز و شاداب گلشن و چمنستان کو دشمنوں کی یلغار سے تحفظ اور اس کے چنگل سے اسے آزادی دلانے کی خاطر بے دریغ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کردیا-
آزادی ہند کی خاطر اپنے آبا و اجداد اور برادرانِ وطن کی قربانیوں کی دل دوز جگر سوز داستان کا تذکرہ کرتے ہوئے منصف اور مستند مؤرخ علامہ یٰسین اختر مصباحی لکھتے ہیں:
"جنگ آزادی 1857ء میں ناکامی (19/ستمبر ١٨٥٧ء) کے بعد ہندوستانیوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف انگریزوں نے جن وحشیانہ مظالم کا ارتکاب کیا اس کا ذکر بعض انگریز مؤرخین نے بھی اس طرح کیا ہے کہ: ہم نے ہندوستانیوں کے ساتھ جو سلوک کیا اس کا اپنے ملک (برطانیہ) میں تصور بھی نہیں کرسکتے- متعدد مؤرخین نے لکھا ہے کہ: دہلی سے پشاور تک گرینڈٹرنک روڈ کے دونوں جانب شاید ہی کوئی خوش قسمت درختوں ہوگا جس پر ایک یا دو عالم کو پھانسی نہ دی گئی- ایک اندازہ کے مطابق تقریبا 22 ہزار علما کو پھانسی دی گئی- اور مجموعی طور پر لگ بھگ پانچ لاکھ مسلمانوں کو پھانسی دی گئی- جو بھی معزز مسلمان کسی انگریز کے ہاتھ لگ گیا اس کو ہاتھی پر بٹھایا گیا اور کسی درخت کے نیچے لے جا کر اس کی گردن میں پھندا ڈال کر ہاتھی کو آگے بڑھا دیا گیا ہے- مظلوموں کی تعداد ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے کہ: جن کی لاشیں پھندے میں جھول گئیں، آنکھیں ابل پڑیں، اور زبان، باہر نکل آئی- ایک انگریز کمانڈر لارڈ را برٹس بیان کرتا ہے کہ: چاندنی چوک (دہلی) میں شہر خموشاں کا منظر تھا- ہر طرف لاشیں بکھری ہوئی تھیں- ایک بھی زندہ مخلوق ہماری نظر سے نہیں گزری- کہیں کوئی کتا کسی لاش کو بھنبھوڑ رہا تھا- کہیں کوئی گدھ اپنی گھناؤنی غذا چھوڑ کر پھڑپھڑاتے ہوئے کچھ دور چلا جاتا، لیکن اس کا پیٹ اتنا بھر چکا ہوتا کہ وہ اڑ نہیں سکتا تھا- معلوم ہورہا تھا کہ، ہماری طرح ہمارے گھوڑوں پر بھی خوف طاری تھا- اس لیے وہ بھی بار بار بدک جایا کرتے تھے-
میجر ٹامسن اپنی یادداشت میں لکھتا ہے کہ: ہمارے اکثر نوجوان محض اپنی خواہش اور شوق پورا کرنے کے لیے ہندوستانیوں کو گولیوں سے بھون دیا کرتے تھے- ایک انگریزی کمانڈرجنرل نیل نے الہ آباد اور کان پور کے درمیان بے شمار دیہات و قصبات کو جلا کر خاکستر کر دیا اور بے شمار دیہاتیوں اور قصباتیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا- اس طرح کے المناک واقعات و حادثات سے جنگ آزادی ١٨٥٧ء کی تاریخ ہندوستانیوں کے خون سے رنگین ہے- مگر افسوس کہ آج کی نوجوان نسل اپنے اس کرب ناک و المناک ماضی سے بالکل بے خبر ہے کہ: انگریزی سامراج نے کس طرح ہزاروں لاکھوں انسانوں کے ساتھ خوفناک مظالم کرکے دہلی کے تخت و تاج پر قبضہ کیا اور انگریزوں کو دہلی پر قبضہ کرنے سے روکنے اور ان سے آزادی حاصل کرنے کے لیے کتنی قربانیاں اس وقت کے انقلابیوں اور ہندوستانیوں نے دی!!”
( ص 7-6 تحریکِ آزادی 1947 اور جنگ آزادی 1857 از: یسین اختر مصباحی)
اس کے باوجود آج سوتیلا پن اختیار کیا جا رہا ہے- ہماری عفیف تاریخ کے ساتھ نازیبا حرکتیں کر کے نئی نسل کا رشتہ ماضی سے توڑ کر تاریخی حقائق ناقابل فراموش خدمات اور اخلاص و وفا کے انمٹ نقوش کو مٹانے کی ناپاک سازش کی جا رہی ہے-
ان روح پرسا حالات کے تناظر میں علمائے امت اور مفکرین ملت کی خطیر ذمہ داری ہے کہ 15 اگست اور دیگر قومی تہواروں کو منعقد کرکے اپنی نئی نسل کو اپنے ماضی سے جوڑیں اور ملک ہند کی آزادی اور اس کی تعمیر و ترقی میں اپنے آباؤ اجداد کے قابلِ فخر کردار سے باخبر کریں- اگر ہماری نئی نسل نے اپنے آبا و اجداد کے اخلاص و وفا کی تاریخ بھلادی تو ان کے مستقبل کو خطرات کی زد سے کوئی نہیں بچا سکتا-
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستانیو!
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں